طیبہ کے آرہا ہوں چمن زار میں، حضورؐ- ریاض حمد و نعت

طیبہ کے آرہا ہوں چمن زار میں، حضورؐ
مہکوں گا خوب دامنِ گلزار میں، حضورؐ

مکے کی سرزمین کو چوما ہے بارہا
کھویا رہا ہوں سرمدی انوار میں، حضورؐ

میری بھی ہو گی اس سے ملاقات کل ضرور
دل تو وہیں ہے، کوچہ و بازار میں حضورؐ

مجھ کو مرے خدا نے دکھایا ہے اپنا گھر
گھر کی دعائیں ہیں لبِ اظہار میں حضورؐ

بچے سلام کہنے کو کہتے تھے بار بار
اُن کے سلام ہیں مرے اشعار میں، حضورؐ

چلتا رہوں میں آپؐ کی جانب تمام عمر
لغزش کہیں نہ آسکے رفتار میں حضورؐ

(٭ مدینہ منورہ روانگی سے ایک روز قبل مکہ معظہ میں لکھی گئی۔ )

لب پر ہیں پھول لاکھ درود و سلام کے
حاضر قلم کے ساتھ ہوں دربار میں، حضورؐ

صدیوں کی دھوپ میرے تعاقب میں ہے ابھی
رکھیئے گا مجھ کو سایۂ دیوار میں، حضورؐ

زخمی ہے میرا قلبِ پریشاں، نفَس نفَس
آنسو رکے ہیں دیدۂ بیدار میں، حضورؐ

تصویر احترام کی بن جاؤں اور بس
کچھ کہہ نہ پاؤں آپؐ کی سرکار میں حضورؐ

مہکی ہوئی فضا ہے ازل سے، ادب ادب
کیا کیفِ دلگذار ہے اشجار میں، حضورؐ

آنکھیں تلاشِ گنبدِ خضرا میں ہیں مری
آنکھیں چھپی تھیں کل مرے اخبار میں حضورؐ

اچھا ہے اپنے ہونٹ مقفّل رکھے ریاضؔ
کیا کچھ نہیں ہے دستِ طلب گار میں، حضورؐ

فردیات
ء
طیبہ، قلم کے عشق کی محراب ہے ریاضؔ
ہر ہر قدم پہ سجدے گذارے گا حشر تک
ء
طیبہ کی یاد مجھ کو ستاتی ہے ہر گھڑی
بارِ دِگر، حضورؐ کرم ہو غلام پر
ء
نعتِ سرکارِؐ مدینہ کی بدولت ہمسفر!
زندگی میری شگفتہ پھول کی مانند ہے

*