نطقِ شاعر پہ کھُلے حمد و ثنا کا موسم- رزق ثنا (1999)

نُطقِ شاعر پہ کھُلے حمد و ثنا کا موسم
کل بھی شاداب رہے حرفِ دعا کا موسم

دے مرے بچوں کو کردار کی خوشبو کا چراغ
شہرِ تہذیب کو دے صدق و صفا کا موسم

خشک ہوجائے نگاہوں کی ہوس کا پانی
اور پھر اترے وہی فقر و غنا کو موسم

روشنی لکھّے مری شام کا منظر نامہ
نور میں غرق رہے شب کی ردا کا موسم

عجز کا زر ہو مرے دستِ طلب پر یارب
ڈوب جائے مرے لہجے میں انا کا موسم

آئنے جیسا ہو سرکارؐ کے قدموں کے طفیل
یا خدا! میرے خدا! ارضِ دعا کا موسم

اُنؐ کے نعلین کی خیرات سے جھولی بھردے
خوب برسے مری مٹی پہ عطا کا موسم

کب تلک میرے مقدّر میں شبِ غم کا دھواں
کب تلک میرے خدا کرب و بلا کا موسم

جن کو جلنا ہو وہ ہر حال میں جلتے ہیں ریاضؔ
لاکھ ہو صحنِ گلستاں میں ہوا کا موسم

آج بھی دامنِ جذبات میں مہکے ہیں گلاب
آج بھی رقص میں ہے جود و سخا کا موسم

تتلیو! میرے تعاقب میں چلو طیبہ تک
اُنؐ کے در پر ہے پڑا رنگِ حنا کا موسم

نسلِ آدم کے لیے امن کا دستورِ عمل
تازہ افکار کا مرکز ہے حرا کا موسم

حشر تک چین سے سوجائو فرشتوں نے کہا
دیکھ کر قبر میں بھی صلِّ علیٰ کا موسم

ہر طرف اُنؐ کی شفاعت کی گھٹائوں کا ہجوم
کتنا دلکش ہے اُدھر روزِ جزا کا موسم

تشنہ کامی کا مداوا ہے تصور اُنؐ کا
وجد میں آئے ذرا کالی گھٹا کا موسم

جب تلک چومے نہ تھے نقشِ کف پائے حضورؐ
پیکرِ حسن تھا کب ارض و سما کا موسم

ذکرِ سرکارؐ سے ہوتی رہیں خوشبوئیں کشید
عمر بھر گھر میں رہا بادِ صبا کا موسم

ظاہراً ہی درِ اقدس کو نہ چومیں آنکھیں
من کے اندر بھی ہو تسلیم و رضا کا موسم

شہرِ آقاؐ میں نگاہیں نہیں اٹھنے دیتا
خطۂ ذہن میں یہ جرم و سزا کا موسم

خاکِ طیبہ کو ملے حکمِ سفر میرے رسولؐ
میرے زخموں کی ضرورت ہے شفا کا موسم

میرے پندارِ شکستہ سے الجھنے والو!
میرے آنگن میں بھی ہے اُنؐ کی ثنا کا موسم

ایک اِک لمحے پہ بھی قرض ہے صدیوں سے ریاضؔ
خود فریبی کے اندھیروں میں ضیا کا موسم

درِ آقاؐ پہ ریاضؔ اپنے خدا سے مانگو
اپنی بستی کے لیے خوفِ خدا کا موسم