سکونِ قلب کی ہوں رتجگوں میں رونقیں، آقاؐ- ریاض حمد و نعت

سکونِ قلب کی ہوں رتجگوں میں رونقیں، آقاؐ
کبھی تشنہ زمینوں پر بھی اتریں بارشیں، آقاؐ

مدینے کے سفر میں ہمسفر ہوں خوشبوئیں، آقاؐ
شجر انوار کے ہر موڑ پر مجھ کو ملیں، آقاؐ

تلاشِ رزق میں ہوں، چاک دامن کے سلیں، آقاؐ
کہاں لے جائیں گی مجھ کو فلک کی گردشیں، آقاؐ

وقار و تمکنت کے بند دروازے کھُلیں، آقاؐ
غلاموں کے مقدّر میں رقم ہوں ہجرتیں، آقاؐ

ہوا کے نرخنامے آج حکماً ہوں گے آویزاں
خنک پانی کی ہوں تقسیم لاکھوں چھاگلیں، آقاؐ

مری ہر شامِ پُرنم کی جبیں پر خاکِ انور ہے
ترےؐ در پر کھڑی ہیں سر جھکائے ساعتیں، آقاؐ

وفورِ شوق تھمتا ہی نہیں میرے مصلّے پر
مرے لکنت زدہ نطق و بیاں سجدے کریں، آقاؐ

مَیں سر تا پا نیاز و عجز کی خوشبو کا پیکر ہوں
دعا کے پھول مجھ جیسوں کی شاخوں پر کھلیں، آقاؐ

ترےؐ روضے پہ ہے سب روزِ روشن کی طرح روشن
مرے ہر آئنے میں ہیں ازل سے حیرتیں، آقاؐ

کسی دن میرے آنگن سے بھی ہو گی تیرگی رخصت
کسی دن میرے سر سے بھی ٹلیں گی آفتیں، آقاؐ

کوئی جھوٹی تسلی بھی نہیں دیتا مصیبت میں
مرے بھی قریۂ دل پر ہوں لاکھوں رحمتیں، آقاؐ

مناظر زرد لمحوں کے کفن میں کب سے لپٹے ہیں
ہوائیں، سبز، لے کر اوڑھنی، سر پر چلیں، آقاؐ

مری کلکِ ثنا جھک کر بجا آداب لاتی ہے
ہتھیلی پر ہوائیں پھول طیبہ کے رکھیں، آقاؐ

مری ہر نعت طشتِ آرزو میں رکھ کے برسوں سے
سناتی ہیں درِ اقدس پہ دل کی دھڑکنیں، آقاؐ

یقیں ہے، آپؐ کے نقشِ کفِ پا کے وسیلے سے
سواگت میری نسلوں کا کریں گی منزلیں، آقاؐ

مجھے بھی خطۂ لطف و عطا میں ہر گھڑی رکھیں
ہراساں مجھ کو رکھتی ہیں بہت سی الجھنیں، آقاؐ

تشدد کی ہواؤں میں سلگتا ہے بدن میرا
کرم کے بادلوں کے قافلے سر پر رہیں، آقاؐ

ہماری داستاں، مقروض ہر اک لفظ ہے جس کا
سوائے آپؐ کے ہم روبرو کس کے کہیں، آقاؐ

شعور و آگہی، علم و ہنر، برہان و دانش کی
ہمارے کاسۂ اعمال میں بھی دولتیں، آقاؐ

سرِ محشر شفاعت کے کھُلیں جب ریشمی پرچم
ترے مدحت نگاروں کی وہاں دھومیں مچیں، آقاؐ

قلم کی مجرمانہ غفلتیں بھی اس میں شامل ہیں
الٹ دی ہیں ہواؤں نے ہماری مسندیں، آقاؐ

تعارف اپنا خود ہوتا ہے ہر تخلیق کا باطن
کتابِ عشق میں قاری مرے مجھ کو پڑھیں، آقاؐ

ازل سے ہیں تریؐ ہی ذاتِ اقدس کے لئے مختص
خدا کے بعد ساری رفعتیں اور عظمتیں، آقاؐ

ثنا کرتے ہوئے اتریں لحد کی سبز وادی میں
ثنا کرتے ہوئے اپنی لحد سے ہم اٹھیں، آقاؐ

ہوائے جَبْر نے تضحیک کی مٹی اڑائی ہے
جیئں تو ہم اٹھا کر سر زمانے میں جیئں، آقاؐ

ورق پر جب ثنائے مرسلِ آخرؐ اترتی ہے
حروفِ با وضو کو چومتی ہیں نکہتیں، آقاؐ

خدا کا نام لے کر آج بھی میرے تخیل نے
رقم ہونٹوں پہ کی ہیں آپؐ ہی کی مدحتیں، آقاؐ

فضائے خلدِ توصیف و ثنا میں سانس لیتا ہوں
مرے چاروں طرف ہیں راحتیں ہی راحتیں، آقاؐ

ترے اسمِ منوّر سے منوّر بستیاں میری
ترے اسمِ منوّر کی ہیں گھر میں مشعلیں، آقاؐ

مدینے کے حسیں ننھے فرشتوں کے تصدّق میں
خدا آسان کر دے گا مری بھی مشکلیں، آقاؐ

کہیں مایوسیوں کی آگ میں جل کر نہ مر جاؤں
ریاضِؔ کم نظر کو حوصلہ پھر آج دیں، آقاؐ

*