آئنہ خانہ الگ، طیبہ کا ہر منظر جدا- ریاض حمد و نعت

آئنہ خانہ الگ، طیبہ کا ہر منظر جدا
اُنؐ کی توصیف و ثنا کے ہیں مہ و اختر جدا

خود تلاشوں اپنے موسم، خود لکھوں اپنے گلاب
دے مرے لوح و قلم کو، سب سے بال و پر جدا

منفرد ہے میرا اسلوبِ غلامی، ہمسفر
دائرہ مدحت نگاری کا بھی ہے، اکثر جدا

چل پڑے ہیں قافلے جذبات کے سوئے نبیؐ
خیمہ زن بزمِ تخیل میں بھی ہیں لشکر جدا

مرکز و محور نبیؐ کا بس خدا کی ذات ہے
مدرسے میں، فعل کا ورنہ ہے ہر مصدر جدا

اُس کی ہر ہر اینٹ پر رکھوں گا اشکوں کے چراغ
مَیں بناؤں گا مضافاتِ حرم میں گھر جدا

دوسروں کے حالِ دل کی کچھ خبر رکھتا نہیں
محفلِ میلاد میں بھی مَیں رہا شب بھر، جدا

رنگ دامانِ سخن کا مختلف ہے آج بھی
ہے تغزّل کا تشخّص بھی مرے اندر جدا

اُن کے شاعر کی بھی ہے طرزِ فغاں سب سے الگ
حرفِ مدحت ہے جدا اور عشقِ پیغمبرؐ جدا

خوف کے گرداب سے کشتی مری آئی نکل
جیب و داماں میں پڑے ہیں آج بھی کچھ ڈر جدا

کل بھی ہوگا منفرد میری رہائی کا سبب
آج بھی ہے میرے ہر جانب بپا محشر جدا

اُنؐ کے دامانِ کرم کو پھول کیا لکھّوں، ریاضؔ
پھول تو مر جھا گئے ہیں پھول سے ہو کر جدا

*