حمد و نعت: اُس ذاتِ لا شریک کو ربِ جہاں کہوں- ریاض حمد و نعت

اُس ذاتِ لا شریک کو ربِ جہاں کہوں
ہر چیز پر ریاضؔ اُسے حکمراں کہوں

جس کا ہے نور ارض و سماوات پر محیط
اُس بیکراں وجود کو میں لامکاں کہوں

الفاظ گنگ سوچ کا چہرہ بھی فق ہوا
حیرت زدہ ہوں کس طرح حرفِ بیاں کہوں

مَیں عجز و انکسار کی سرحد پہ سرنگوں
اُس حرفِ معتبر کو فقط جاوداں کہوں

حمدِ خدا سے کرتا ہوں آغاز نعت کا
اپنی زباں کو کیوں نہ اُسی کی زباں کہوں

نامِ نبیؐ کے ساتھ جو آنکھوں میں آ گئے
اُن آنسوؤں کو حاصلِ عمرِ رواں کہوں
پرچم بنا کے دامنِ صد چاک کا کبھی
ڈوبی ہوئی ہیں خون میں سب بستیاں کہوں

جی چاہتا ہے گنبدِ خضرا کے سامنے
ٹوٹے ہوئے وطن کی کبھی داستاں کہوں

اک سیلِ ذوق و شوق رگوں میں ہے موجزن
اک سلسبیل نور کی ہے زر فشاں کہوں

پہلے کروں مَیں کوثر و تسنیم سے وضو
پھر اُنؐ سے بیقراریٔ تشنہ لباں کہوں

انسانیت کے محسنِ اعظمؐ کے نام کو
زخموں کی تیز دھوپ میں اک سائباں کہوں

اُنؐ کے نقوشِ پا کو لکھوں منزلِ یقیں
اُنؐ کی گلی کو غیرتِ صد آسماں کہوں

دُرِّ یتیم، آمنہؓ کے لالؐ کو ریاضؔ
سردارِ کائناتؐ، شہِ مرسلاںؐ کہوں

قطعات

شکریہ، مل کر ادا اپنی دعاؤں کا کرو
شکریہ، چشمِ طلب کی التجاؤں کا کرو
قافلے والو! مضافاتِ مدینہ میں ہو تم
خیر مقدم شہرِ طیبہ کی ہواؤں کا کرو

*

یاخدا! تیرے کرم کی انتہا کوئی نہیں
یاخدا! آسودگی کے سرمدی لمحے ملیں
اپنے بیٹے کی پریشانی نہیں دیکھی گئی
اس کی شاخِ آرزو پر ان گنت کلیاں کھلیں