شبِ غم میں برہنہ سر ہوں ستارِ گہر دینا- رزق ثنا (1999)

شبِ غم، مَیں برہنہ سر ہوں، دستارِ گُہر دینا
اُجالا ہر طرف کردوں وہ خورشیدِ ہنر دینا

بہاروں میں نمو کی سبز کرنیں بانٹنے والے
مرے دامن کو بھی مہکی ہوئی کلیوں سے بھر دینا

ترے دربار میں جرأت کسے ہے لب کشائی کی
خدائے لم یزل، مجھ بے زباں کو چشمِ تر دینا

بھروسے پر ترے کشتی سمندر میں اتاری ہے
تو ہر موجِ بلا کو ساحلِ امید کر دینا

تری قدرت سے پھولوں میں سجی رہتی ہیں تصویریں
ترا ہی کام ہے بوئے چمن کو بال و پر دینا

بنائوں نقش جو اُس کی عطا کرنا پذیرائی
سخن کے آئنہ خانے میں عکسِ معتبر دینا

حروفِ التجا بن کر قلم تک آگئے آنسو
مری رودادِ روز و شب کو عنواں بھی مگر دینا

تجھے اے رحمتِ رب، واسطہ تقدیسِ کعبہ کا
زمیں پر بسنے والے ہر بشر کو ایک گھر دینا

ابھی تک بے لباسی پیرہن ہے ابنِ آدم کا
عذابِ نارسائی میں ردائے آبِ زر دینا

اٹھیں گی کب تلک غم کی صدائیں خیمۂ جاں سے
کبھی ذوقِ سماعت کو نوائے نغمہ گر دینا

ترے ہی حکم کے پابند ہیں اڑتے ہوئے بادل
انہیں پیاسی زمینوں کی طرف اذنِ سفر دینا

جنہیں تُو نے نوازا ہے مسلسل اپنی رحمت سے
انہیں اپنے جلالِ پادشاہی کا بھی ڈر دینا

تری دنیا میں اب تو سانس بھی لینا ہوا مشکل
حصارِ ذات کے اندر کی دیواروں کو در دینا

میں ہر چہرے پہ لکھ دوں روشنی سے دن کی تفسیریں
مرے کمزور سے ہاتھوں میں بھی ایسا ہنر دینا

مرے بچّوں کی آنکھوں میں دھنک کی رم جھمیں رکھ کر
تو اِن کے جاگتے خوابوں کو تعبیرِ سحر دینا

ترے محبوبؐ کی مدحت سرائی میرا منصب ہو
غریبِ شہرِ دل ہوں الفتِ خیرالبشرؐ دینا

بہل جائوں میں اک قطرے سے ناممکن مرے مولا
مجھے اُنؐ کی محبت کے ہزاروں بحر و بر دینا

جو مصروفِ طوافِ گنبدِ خضرا رہیں ہر پَل
مجھے ایسا قلم دینا، مجھے ایسی نظر دینا

ریاضِـؔ بے نوا کی ہر خطا سے در گزر کرکے
تو اس کی آخرِ شب کی دعائوں میں اثر دینا