ازل سے دید کا پیاسا ہوں اب کہاں جاؤں- زر معتبر (1995)

ازل سے دید کا پیاسا ہُوں اب کہاں جاؤں
خنک سبیل پہ بیٹھا ہوں اب کہاں جاؤں

ہوس کسے ہے زمانے کی پادشاہی کی
حضورؐ، قدموں میں آیا ہُوں اب کہاں جاؤں

مَیں اعتبارِ محبت گنوا نہیں سکتا
غبارِ شہرِ تمنّا ہوں اب کہاں جاؤں

سحر دوام کی منزل پہ آکے ٹھہری ہَے
شبِ سیاہ کا مارا ہوں اب کہاں جاؤں

زمیں کے سارے روابط کو توڑ کر گھر سے
کفن لپیٹ کے نکلا ہُوں اب کہاں جاؤں

تریؐ گلی کے چمن زار میں مِرے آقاؐ
مَیں پھول بن کے مہکتا ہوں اب کہاں جاؤں

گرہ پڑی ہَے مِری سانس کے تسلسل میں
چراغ، آخرِ شب کا ہوں اب کہاں جاؤں

مَیں اور کون سا تمغہ سجاؤں سِینے پر
غلامِ سیّدِ والا ہوں اب کہاں جاؤں

مسافتوں کا ازل سے ہَے بوجھ شانوں پر
ہوائے کرب کا جھونکا ہوں اب کہاں جاؤں

ریاضؔ مل گیا سایہ فصیلِ رحمت کا
دیارِ نُور میں پہنچا ہوں اب کہاں جاؤں