دردِ دل اور اشکوں کی برسات- نعت کے تخلیقی زاویے

علامہ محمد قمرالزماں اعظمی کے مجموعہ نعت ’’بعد از خدا‘‘ پر ایک نظر

اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کا منظر نامہ بھی نعت کے الوہی نغمات سے معمور ہے اور قصرِ نعت کی ہر اینٹ عشق و محبت کے نقش و نگار سے مصور ہے۔ مدحتِ رسولؐ کے چراغ حریمِ دیدہ و دل کے دریچوں میں روشن ہیں۔ یہی روشنی انسانی تمدن کے گھپ اندھیروں میں سرو چراغاں بنی ہوئی ہے۔ بیسویں صدی کی آخری تین چار دہائیوں میں نعت کا کینوس خلا کی وسعتوں سے بھی زیادہ وسیع ہوا تھا۔ اقلیمِ نعت میں مضامین نو کے سرمدی ایوان تعمیر ہوئے تھے، مقدار اور معیار دونوں کے لحاظ سے نعت شہرِ سخن میں ہر سمت پھول بکھیر رہی تھی، اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں دھنک کے سات رنگوں کی تابانی میں مزید اضافہ ہوا ہے اور نعت اجتماعی اور انفرادی دونوں سطحوں پر نئے تخلیقی آفاق کی تسخیر میں مصروف ہے۔ ’’بعد از خدا‘‘ کے شاعرِ خوش نوا علامہ محمدقمرالزماں اعظمی بھی جدید اردو نعت کے انہی معماروں کی صفِ اول میں شامل ہیں۔

آج امتِ مسلمہ کربلائے عصر میں کھڑی ہے، اس پر عرصۂ حیات تنگ کیا جارہا ہے حضورؐ کی دکھی امت زخموں سے چور چور ہے اور کوئی اس کا پرسانِ حال نہیں۔ ہمارے ناخدائوں نے امت کی کشتی کو گردابِ ابتلا میں سرکش موجوں کے حوالے کررکھا ہے، ساحلوں کی روشنی تو ایک طرف بے آباد جزیرے بھی دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ برہنہ سروں پر سورج آگ برسا رہا ہے اور تشنہ لبی ہمارا مقدر بنادی گئی ہے۔ آج امتِ مسلمہ اجتماعی خودکشی کے دہانے پر کھڑی ہے ایسے میں نظریں رہ رہ کر افقِ مدینہ کی جانب اٹھ رہی ہیں۔ آج کی نعت امتِ مسلمہ کے فطری ردِ عمل کا تخلیقی روپ ہے، علامہ صاحب کا داخل ہی نہیں خارج بھی اشکبار ہے۔ انہوں نے اپنا ہی نہیں امتِ مسلمہ کا بھی مرثیہ لکھا ہے۔

سوچ اور اظہار کے بدلتے ہوئے پیمانوں میں استغاثے کا رنگ بدستور نمایاں ہے۔ مولانا حالی کے پیرایہ اظہار کا ظہور آج کی نعت میں تواتر سے ہورہا ہے۔ اس پس منظر میں اگر علامہ محمد قمرالزماں اعظمی کے نعتیہ مجموعے ’’بعد از خدا‘‘ کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو یہ خوشگوار حیرت دل کے آئینہ خانے میں تجسیم ہوجاتی ہے کہ شاعر کا درد مند دل مسلم امہ کی زبوں حالی پر خون کے آنسو برسارہا ہے۔ شاعر منتظر ہے کہ کربلائے عصر میں گہری ہوتی ہوئی شامِ غریباں میں روشنی کا کوئی ستارا ابھرے، اپنی ثقافتی اکائی اور تہذیبی وجود کی سلامتی اور بقا کی آرزو ہر لفظ کے پیراہن میں ڈھلتی نظر آرہی ہے۔ ہر لفظ تصویرِ ادب بن کر درِ اقدس پر حاضری دے تو نعت ہوتی ہے، نعت حضوری کے لمحاٹ کا عکسِ جمیل ہے۔ ’’بعد از خدا‘‘ کے شاعر علامہ محمد قمرالزماں اعظمی اسی کیفِ مسلسل میں سرشار ہیں۔ ان کے چمنستانِ نعت میں اشکوں کی برسات کا منظر دیدنی ہے۔ آپ نے تلمیحات سرمدی کو بھی شعر کا موضوع بنایا ہے جو ان کے انفرادی پہلوئوں کا ایک اور نمایاں وصف ہے۔ غزل کی ساری رعنائیاں ان کی نعت میں خوشبوئیں بکھیر رہی ہیں۔ نفسِ مضمون پر تخلیقی گرفت اپنی مثال آپ ہے۔ تخلیقِ حسن میں ان کا قلم مسلسل رواں دواں ہے۔ میری دعا ہے کہ ان کا قلم اقلیمِ نعت میں نئے نئے چراغ جلاتا رہے اورحضورِ حسن مسلسل پھول بکھیرتا رہے۔

ریاض حسین چودھری