توفیقِ خیر، عزت، شہرت، کمال فن- نعت کے تخلیقی زاویے

ثاقب علوی کے دوسرے نعتیہ مجموعہ’ نجم ثاقب‘ پر تاثرات

اندر کی روشنی کے بھرپور ابلاغ کا نام شاعری ہے۔ اگر یہ شاعری درود و سلام کے پیرہن میں سج دھج جانے کا اعزاز حاصل کرلے تو نعت کہلاتی ہے۔ حضورؐ ختم المرتبت کے شمائل، فضائل، خصائل اور خصائص کے والہانہ اظہار سے نعت کے اساسی رویے معرضِ وجود میں آتے ہیں۔ کتاب عشق کے ان اساسی رویوں کا پہلا ماخذ ہدایت آسمانی کی آخری دستاویز قرآن مجید اور دوسرا ماخذ خود تاجدار کائنات کی سیرت مقدسہ ہے، جدید تر اور آج کی نعت بھی انہی اساسی رویوں کی روشنی میں ارتقا پذیر ہے۔ حسان بن ثابتؓ سے لے کر حفیظ تائب تک اور حفیظ تائب سے لے کر ثاقب علوی تک مدحت رسول کی کہکشاں حروف تازہ میں جگمگا رہی ہے۔ نعت حضور کی بے انت وسعتوں میں سوچ اور اظہار کے نئے نئے آفاق تسخیر ہورہے ہیں۔ ثاقب علوی کا ایک شعر ہے:

نئے انداز سے ذکر پیمبرؐ میں تھا سرگرداں
تصور کو مرے کس نے رگِ افکار ہی باندھا

تخلیق کائنات سے لے کر لمحہ موجود تک اور لمحہ موجود سے لے کر امید کی لامحدود منطقوں تک ہر لمحے اور ہر ساعت کے ہاتھ میں خوشبوئے ثنائے رسولؐ کا پرچم لہرا رہا ہے، کتاب تقدیر کا فیصلہ ہے کہ یہ پرچم کبھی سرنگوں نہیں ہوگا۔ بلندیوں پر لہرانے کا یہ عمل حشر بھر جاری رہے گا۔ قلمدانِ ثنا ماہ و سال کے تغیر سے ماورا ہے۔ کتابِ تحسینِ مصطفی میں لفظِ زوال درج ہی نہیں کیا گیا۔ گردشِ لیل و نہار قصر ثنا کے دریچوں پر پلکوں سے دستک پاکر احتراماً سرجھکا دیتی ہے۔ عرش سے فرش تک گلابِ اسمِ محمدؐ کی خوشبوئے دلنواز نعت پرور ہی نہیں، لب کشا بھی ہے۔ صل علیٰ کے سرمدی نغمے سے فضا معمور ہے۔تخئیل لب کشا کا موسم درود و سلام کے موسم دلکشا کی عطا ہے۔ نعت حضورؐ اس عطا کی رعنائیوں کا نام ہے اور یہ رعنائیاں ہر ہر صدی پر محیط ہیں، ہر زمانہ میرے حضورؐ کا زمانہ ہے، ہر صدی میرے حضورؐ کی صدی ہے، ہر ہر لمحہ وابستگی کے اسی نور میں ڈوبا ہوا ہے۔

جبیں بے تاب ہو اور سامنے ہو نقش پا اُنؐ کا
تو عشاق نبی سے پھر تحمل ہو نہیں سکتا

وارفتگی اور خود سپردگی کا منطر دلکش دیدنی ہے۔ ہمارا ہر حوالہ خدائے بزرگ و برتر کے رسول اول و آخر سے شروع ہوکر انہیؐ پر ختم ہوجاتا ہے۔ نعت انہی سرمدی حوالوںکو مزید معتبر بناتی ہے اور انہیں اعتماد و اعتبار کا نور عطا کرتی ہے۔ مبارکباد کے مستحق ہیں وہ ارباب علم و دانش جو اللہ رب العزت کے عطا کردہ قلم کو اس کے حبیبؐ کی ثنا کے لیے وقف کردیتے ہیں۔ انہی خوش قسمت شعرا میں ثاقب علوی کا نام بھی آتا ہے:

توفیق خیر، عزت و شہرت، کمال فن
ذکرِ رسول پاک نے کیا کیا نہیں دیا

ثاقب علوی کا اردو کا پہلا مجموعہ نعت صبغتہ اللہ تھا جس پر 2009ء میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا تھا۔ آپ پنجابی میں بھی نعت کہتے ہیں اور خوب کہتے ہیں۔ ’’چانن چار چوفیرے ‘‘نے قومی اور صوبائی سیرت ایوارڈ بھی حاصل کئے تھے۔’’ نجم ثاقب‘‘ اردو میں آپ کا دوسرا نعتیہ مجموعہ ہے جو کئی حوالوں سے علمی اور ادبی سطح پر نئے معیارات قائم کررہا ہے۔ بارگاہ حضورؐ میں کلمات تشکر و امتنان پیش کررہے ہیں۔

مرے نبیؐ کی نوازش ہے دائمی ثاقب
ہزار بار نوازا طلب کیا جو بھی

ان کے شعری وژن میں رجائیت کا پہلو نمایاں ہے۔منظر نامہ امید کی روشنی میں جگمگا رہا ہے۔ مشکل پسندی سے کلیتاً دامن نہیں چھڑا سکتا۔ ان کی مشکل پسندی طبع نازک پر گراں نہیں گذرتی، جب مفہوم کی پرتیں کھلتی ہیں تو قاری کے رگ و پے میں طمانیت اور آسودگی کی ایک لہر ہی دوڑ جاتی ہے۔ اس کے حیطہ ادراک میں پھول بھی کھلتے ہیں اور خوشبوئیں رقص کرنے لگتی ہیں۔

تیری جانب نہ کیوں لپکیں بھلا ابحار علم و فضل
جو نقش نعل انؐ کا طرہ و دستار میں باندھا

ذوق نعت بلندیوں کی طرف محو پرواز ہے، شوق کی منزلیں کیف حضوری میں طے ہوتی ہیں، ہوائیں چراغ ثنا جلانے میں مصروف رہتی ہیں، ذوقِ سخن کی روشنی میں اعتماد کی مشعل فروزاں ہے۔ یقینِ کامل میسرہو تو رختِ سفر باندھنا پڑتا ہے اور نہ زاد سفر کے لیے تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔

خود میں بلائیں گے مجھے وہ از پئے درود
حاجت نہیں ہے کوئی مجھے اہتمام کی

لمحاتِ حضوریؐ کی تلاش اور ان کا حصول ثاقب علوی کی زندگی کی سب سے بڑی آرزو ہے۔ ’’نجم ثاقب‘‘ کے ورق ورق پر یہ آرزو خوشبو بن کر پھیلی ہوئی ہے۔ خوبصورت اور دلکش تراکیب، منفرد اور دلآویز اسلوب اور لفظیات دامن دل کو کھینچتے ہیں، بساطِ عشق پر اسی خوشبو کا رقص جاری ہے۔ شاعر کے حریم دیدہ و دل میں حبِ مصطفی کے چراغ جل رہے ہیں۔ پس منظر ہی میں نہیں، پیش منظر میں بھی اجالوں کا ہجوم ہے۔

جو ان کی نعت نہ کاغذ کو چوم کر لکھے
مرے قلم کو خدا ایسی روشنائی نہ دے