روح کائنات جھومنے لگی- نعت کے تخلیقی زاویے

(محمد متین خالد صاحب نے میلادِ مصطفیٰ ﷺ کے موضوع پر ’’جب حضور ﷺ آئے‘‘ کے عنوان سے ایک خوبصورت مجموعۂ مضامین ترتیب دیا جسے 1997ء میں شائع کیا۔ ’’روح کائنات جھومنے لگی‘‘ اس کتاب میں شامل ریاض حسین چودھریؒ کی وجدان پرور تحریر ہے جو انہوں نے ’’یہ کس رسول کی آمد ہے بزمِ ہستی میں‘‘ کے عنوان کے تحت پندرہ روزہ تحریک 16 تا 31 اگست 1994ء کے اداریے کے طور پر لکھی۔ )

’’یہ کون آیا ہے کہ محراب یقیں میں کہکشائوں کے جھرمٹ ہجوم کرنے لگے ہیں، یہ کون آیا ہے کہ نسل آدم کے مقدر پر مسلط بانجھ موسموں کے سلگتے ہوئے بدن، انگڑائیاں لے کر بیدار ہونے لگے ہیں، یہ کون آیا ہے کہ سلگتی ہوئی فضائیں شاداب ساعتوں اور مخمور لمحوں سے ہمکنار ہونے لگی ہیں، یہ کون آیا ہے کہ شرف انسانی کی مٹتی ہوئی قدریں پھر سے بحال ہورہی ہیں، یہ کون آیا کہ حرم حق کے پرچم چاروں طرف لہرا رہے ہیں، یہ کون آیا ہے کہ شمیمِ سحر، امن اور سلامی کا مژدہ لیے کلیوں کے گھونگھٹ الٹ رہی ہے، یہ کون آیا ہے کہ حوا کی بیٹی کے برہنہ سر پر چادر رحمت ڈال دی گئی ہے، یہ کون آیا ہے کہ کائنات رنگ و بو میں روشنی کی ہر کرن، وجد میں آگئی ہے، یہ کون آیا ہے کہ روح کائنات جھومنے لگی ہے، یہ کون آیا ہے کہ فصیل قصر شاہی پر عظمت جمہور کے پرچم کھل رہے ہیں، یہ کون آیا ہے کہ چار دانگ عالم میں غلبہ حق کا اعلان ہونے لگا ہے، یہ کون آیا ہے کہ آتش کدوں کی آگ بجھ گئی ہے، یہ کون آیا ہے کہ باطل کے ایوانوں پر لرزہ طاری ہے، یہ کون آیا ہے کہ ابلیسیت کے گھر میں صف ماتم بچھی ہے، یہ کون آیا ہے کہ انسان کی ’’خدائی‘‘ کے خاتمے کی نوید سنائی جارہی ہے، یہ کون آیا ہے کہ رنگ و نسل کے بت پاش پاش ہوگئے ہیں، یہ کون آیا ہے کہ جبر کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے غلاموں کی دنیا میں آزادی کا سورج طلوع ہورہا ہے، یہ کون آیا ہے کہ سسکتی ہوئی انسانیت کے ویران آنگن میں گنگناتی ہوئی خوشبوئیں رقص کرنے لگی ہیں، یہ کون آیا ہے کہ جس کے نقش قدم پر تاریخ کا سفرجاری تھا، جاری ہے اور جاری رہے گا، یہ کون آیا ہے کہ آگہی کا ہر حرف جس کی گفتارِ جمیل سے اکتسابِ شعور کرنے کا پابند ہے، یہ کون آیا ہے کہ شب ستم کی تاریکیاں اپنا رخت سفر باندھنے لگی ہیں، یہ کون آیا ہے کہ بت پرستی کی ہر شکل کی تکذیب کے لیے سامان عبرت فراہم ہونے لگا ہے، یہ کون آیا ہے کہ جس کے ا ٓنے سے زمین پر عدل کا نفاذ ہوگا، یہ کون آیا ہے کہ مقتلوں میں دھول اڑنے لگی ہے اور خون انسانی کی حرمت کو، کعبے کی حرمت سے زیادہ قرار دیا جارہا ہے، یہ کون آیا ہے کہ ہر بریدہ شاخ مسکرانے لگی ہے، یہ کون آیا ہے کہ دامانِ سحر میں گلشن مہکنے لگے ہیں، یہ کون آیا ہے کہ پیاسی زمینوں اور بنجر ساعتوں پر ابرِ کرم کی رم جھم ہونے لگی ہے، یہ کون آیا ہے کہ ہوائے مشکبار مشام جاں کو معطر کرنے لگی ہے، یہ کون آیا ہے کہ جس کا اسمِ گرامی کائنات کی ہر چیز کی زبان پر رواں ہے، یہ کون آیا ہے کہ جس پر خالق کائنات اور اس کے ملائکہ بھی درود بھیجتے ہیں، یہ کون آیا ہے کہ قرآن جس کی اطاعت کو خدا کی اطاعت قرار دے رہا ہے، یہ کون آیا ہے کہ جس کے سر اقدس پر ختم نبوت کا تاج سجایا گیا ہے، یہ کون آیا ہے کہ عرش سے فرش تک نور کی چادر تان دی گئی ہے، یہ کون آیا ہے کہ نسل آدم کے بخت خفتہ پر پڑے نامرادی کے قفل، ایک ایک کرکے ٹوٹنے لگے ہیں، یہ کون آیا ہے کہ تشکیک و الحاد کی وادیوں میں توحید باری اور خالق یکتا و تنہا کا ڈنکا بجنے لگا ہے، یہ کون آیا ہے کہ تاریخ بشر، صدق و صفا، فقر و غنا، جود و سخا اور لطف و عطا کی شگفتہ کلیوں سے مہک رہی ہے، یہ کون آیا ہے کہ تمدن کی جبیں پر چاندنی کی نرم کرنیں نئے دن کا نیا عہد نامہ تحریر کررہی ہیں، یہ کون آیا ہے کہ جس کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ، حکم خدا ٹھہرا ہے، یہ کون آیا ہے کہ تپتے ہوئے ریگ زاروں اور سلگتے ہوئے صحرائوں سے آبِ خنک کے چشمے پھوٹ نکلے ہیں، یہ کون آیا ہے کہ شرک و جاہلیت کے تمام فلسفے باطل قرار دیئے گئے ہیں، یہ کون آیا ہے کہ ابرِ نور و نکہت ہر بستی اور ہر قریے پر کھل کر برسا ہے، یہ کون آیا ہے کہ آئینہ خانوں میں بکھرے ہوئے عکس اور ٹوٹے ہوئے وجود اپنی اکائی کو تحفظ کی ردا میں لپٹا ہوا دیکھ رہے ہیں، یہ کون آیا ہے کہ کارخانۂ قدرت میں روشنیاں، عمل کی صورت میں تجسیم ہونے لگی ہیں، یہ کون آیا ہے کہ فرعونیت اور قارونیت کو کہیں جائے پناہ نہیں مل رہی، یہ کون آیا ہے کہ تاریک خطوں میں دھنک کے ساتوں رنگ بکھرنے اور مچلنے لگے ہیں، یہ کون آیا ہے کہ ابر شفاعت جس کے ہمرکاب ہے، یہ کون آیا ہے کہ بنجر سوچوں والے قلمرو انسان بھی اضطراب سے آشنا ہونے لگے ہیں، یہ کون آیا ہے کہ جس کے فیض کا چشمہ قیامت تک جاری رہے گا، یہ کون آیا ہے کہ جو مرکزِ عشق ہے، یہ کون آیا ہے کہ بعد حشر بھی جس کی رسالت کا پھریرا اڑتا رہے گا، یہ کون آیا ہے کہ جس کے ذکرِ جمیل پر معبد جاں میں ریشمیں موسم اترنے لگے ہیں اور یہ کون آیا ہے جس کا ہر نقشِ پا خورشیدِ محبت بن کر افقِ دیدہ و دل پر طلوع ہورہا ہے اور طلوع کا یہ منظر قیامت تک ہر لمحے اور ہر ساعت کے مقدر کو جگمگاتا رہے گا‘‘۔( ﷺ )

o