انتساب- خون رگ جاں

عظمتِ رفتہ کے نام
جس کے ہم اہل ثابت نہ ہو سکے

ریاؔض سے میری بہت پرانی دوستی ہے۔ میں شاید صدیوں سے اسے جانتا پہچانتا چلا آیا ہوں !! مقدس الہامی کتابوں کے بعد جو سب سے قیمتی کتاب مجھے پڑھنے کو ملی — وہ ریاض کی دل آویز …… دل کش اور حد درجہ حسین و جمیل شخصیت پر مبنی تھی۔ میں نے اس حد تک مستغرق ہو کر اس کتاب کے جگمگاتے ہوئے اوراق سے استفادہ کیا ہے — کہ آج اس کی ہر سطر — اور اس کا ہر حرف میرے لوحِ احساس پر چاند کی طرح نقش ہے۔ وہ خلوص کا پیکر، پیار کا ساگر اور محبت کا سیلاب ہے۔ ریاض کی جادو بھری شخصیت عود و عنبر کے مہکتے ہوئے جزیروں سے زیادہ معطر ہے ! آج جب کہ ….. دوریوں کے طلسم زار میں — بےحد اداس اور تنہا ہوں — ریاض کی زر کار دوستی اور اس سے منعکس ہونے والے یادوں کے جاوداں سلسلے سیالکوٹ کی میٹھی شاہراہوں سے لے کر ’’بلاد العرب ‘‘ کے گہرے نیلے پانیوں تک پھیلے ہوئے ہیں ! الفاظ اتنے مؤثر اور معتبر کہاں ہیں— کہ میں ریاض کے فن اور اس کی من موہنی شخصیت کے سبھی پہلوؤں کو تحریر کی مالا میں پرو کر آپ کے سامنے پیش کر سکوں ! اس کی شخصیت تو دلفریب رنگوں کا ایک گاتا ہوا آبشار ہے — کہ دھنک کے ساتوں رنگ بھی سنولا جائیں ! ریاض کی تصویر کو ذرا غور سے دیکھیئے اور یقین مانیئے وہ اپنی تصویر سے کہیں زیادہ پیارا اور معصوم ہے!

رہا اس کی شاعری کا سوال — تو اس کی شاعری اپنی ہی صاف ستھری ، بے داغ اور نکھری ہوئی شخصیت کا شفاف عکس ہے۔ اُس کی شاعری معمہ نہیں — ایک کھلا ہوا راز ہے ۔ اس میں اسلامی روایات کی عظمت ، مذہب کا تقدس ۔ میکانکی دور کے مسائل کی صدائے بازگشت — خوشیوں کی آہٹ ، دکھوں کی آواز —مرمرین جسموں کی دودھیا چاندنی — زلفوں کی مہکار—اور غم کی جھنکار سبھی کچھ شامل ہے۔ وہ ہمارا نہیں سب کا شاعر ہے۔ وہ ایک دُرِ یکتا ہے— اور اُس بے مثال تاج میں سجنے کے لئے ہے — جس کی وسیع و عریض سلطنت میں صرف انسانیت کی شہریاری ہوگی !

محمد اقبال منہاس
(کویت)