سفرِ رحمت- زر معتبر (1995)

کیف ومستی کے انوار چھا جائیں گے
رنگ آنکھوں کی چلمن میں لہرائیں گے
جھُوم اُٹھے گا میرے بدن میں لہُو
بخت کی یاوری کے بھی دن آئیں گے

شامِ فرقت خُدایا ڈھلے تو سہی
اب چراغِ سفر بھی جلے تو سہی
فاصلے خود بخود ہی سمٹ جائیں گے
کاروانِ محبت چلے تو سہی

چُنتا جاؤں گا پلکوں سے گردِ سفر
بھرتا جاؤں گا دامن میں لعل و گہر
چُوم لوں گا میں بیتاب ہو کر اُنہیں
دشت و صحرا میں آئیں گے جتنے شجر

مَیں درُودوں کی رِم جھم اُٹھائے چلوں
لب پہ اسمِ محمّدؐ سجائے چلوں
ہر قدم پر نچھاور کروں جان و دل
شوق کی کیفیت کو چھپائے چلوں

رقص میں جستجوئے پیمبرؐ رہے
آرزؤوں کا ہمراہ لشکر رہے
مجھ کو زادِ سفر کی ضرورت نہ ہو
سائبانِ کرم سایہ گستر رہے

دیدہ و دل مرے بن کے لوح و قلم
داستانِ مسافر کریں گے رقم
وادیٔ شب میں ہر سمت لہرائیں گے
آنسوؤں، ہچکیوں، سِسکیوں کے عَلَم

الوداع اپنے بچوں کو کہہ جاؤں گا
بن کے مہمان طیبہ میں رہ جاؤں گا
روضۂ پاک پر مثلِ شمِع ادب
اپنی آنکھوں کے رستے سے بہہ جاؤں گا