موت کا رقص- ارض دعا

(قیامت خیز زلزلہ 2005ء)

یا خدا!
میری زندہ دعائیں بھی مردہ ہوئیں
زلزلہ میرے اندر بھی محشر بپا کرگیا
آنسوؤں سے ہیں تر، میرے لوح و قلم
میرا دامن ہوا کے ہے اشکوں سے بھیگا ہوا
ہچکیوں، سسکیوں کے کفن میں مرے لفظ لپٹے ہوئے
آج تفہیم کا ہیں ہنر کھوچکے
میرے اندر کی منظر کشی خاک کر پائیں گے؟
میری آنکھیں حصارِ الم میں ہیں سہمی ہوئی
یہ کیا ہوگیا
جاگتی بستیاں موت کی وادیوں میں کہاں کھو گئیں
اِس طرف بھی گرا میرا اپنا لہو
اُس طرف بھی گرا میرا اپنا لہو
میری آنکھوں میں ویرانیوں کا دھواں
حیرتوں کے سمندر میں ڈٖوبی ہوئی ساعتیں نوحہ زن
میری تہذیب بھی بال کھولے ہوئے
اپنے ملبے کے ڈھیروں پہ روتی رہی
اپنے ملبے تلے زندگی کی کرن کو تلاشے کوئی
کیسا اندھیر تھا
کیسا اندھیر ہے
کانپ اٹھی زمیں
روشنی مرگئی
زندگی مرگئی
ہر خوشی مرگئی
بین کرتی ہواؤں نے ٹوٹے مکانوں پہ دیں دستکیں
موت کیا بولتی
کیسے لب کھولتی
دسکتیں بن کے بھی خامشی کے دریچوں میں روتی رہی
خوشبوئیں بال کھولے اداسی کے جنگل میں
افسردگی کے درو بام پر
حسرتوں کے کئی بیل بوٹے بناتی رہیں
بے بسی سے فلک کی طرف اٹھتی میری زمیں کی کھلی آنکھ پتھرا گئی
جگنوؤں کے یہاں کھوگئے قافلے
تتلیاں کس فضا میں اڑیں، یا خدا
ان فضاؤں پہ قابض ہے دستِ قضا
زندگی کیسے گذرے گی اس راہ سے
روشنی کیسے اترے گی افلاک سے
یاخدا!
آئنوں میں کوئی عکس بھی اب سلامت نہیں
کرچی کرچی ہوا عکس انسان کا
کاٹ ڈالے گئے ہیں ہواؤں کے پر
یاخدا!
مسکراتے ہوئے چاند چہرے
کتابوں کی تحریر پر اپنی نظریں جمائے ہوئے
اپنے ہونٹوں پہ انمول الفاظ کی چاندنی سے ستارے سجاتے ہوئے
اپنے خوابوں کے ملبے تلے دفن کیوں ہوگئے
ان کی لکھی ہوئی تختیاں تو سلامت رہیں
ان کی روشن کتابوں کے اوراق زندہ رہے
خود، مگر، مرگئے
تختیاں یہ کتابیں خراشوں سے محفوظ ہیں
وہ تلاشِ ہنر میں پرندے کہاں اڑ گئے؟
جگنوؤں تتلیوں کے تعاقب سے لوٹے نہیں
آنے والے سمے کی حسیں چاندنی
اب کہاں کھوگئی
ارتقا کی بلندی پہ رکھے ہوئے وہ قدم اب کہاں گم ہوئے
ان جواں سال بیٹوں کی مائیں
کہاں جائیں گی
ان خرابوں میں وہ اپنے لختِ جگر ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود بھی کھوجائیں گی
یاخدا!
رحم کر
اپنے محبوبؐ کے نقشِ پا سے اُگا روشنی