عظیم سانحہ- ارض دعا

احساس کے بدن میں سلگتے ہیں بحر و بر
ڈوبی ہے اپنے خون میں میری نظر نظر

آنکھوں میں بُن رہی ہے اداسی کا گنجلک
ان آنسوؤں کے کرب کی تصویر ٹوٹ کر

منظر عجیب ہے مری نظروں کے سامنے
حیران کیوں ہے میری ندامت پہ چشمِ تر

ان مشعلوں پہ بادِ مخالف کی دسترس
ان دھڑکنوں پہ ظلم مسلط ہے سر بسر

تاریکیوں میں ظلم کی بارش کے مرحلے
پگڈنڈیوں پہ آج رواں ہے کہاں سحر

دہرا رہا ہے کربِ مسلسل کی داستاں
سورج افق کے پار سمندر میں ڈوب کر

اہلِ خرد نے اہلِ جنوں کو دیئے فریب
انجامِ ہولناک سے ممکن نہ تھا مفر

حالات کی صلیب پر نوچا گیا ہوں مَیں
مجھ کو نہ ہوسکی مرے مٹنے کی بھی خبر

اپنی صلیب آپ اٹھانے کی آرزو
کرب و بلا میں چھوڑ گئے ساتھ ہمسفر

کرتے ہیں قتل قافلے والوں کو آپ ہی
کتنے ستم شعار یہ ہوتے ہیں راہبر

اے شہرِ آرزو کے مکینو! جواب دو
کاٹے ہیں کس نے جھومتے لمحوں کے بال و پر

اے چاندنی اتر لب و رخسار سے کبھی
شب خون کس نے مارا ہے تیرے جمال پر

ماتم میں اپنا آپ ہی کرتا ہوں رات دن
یہ کیا کہ بن گیا ہوں میں اپنا ہی نوحہ گر

تھرا گیا ہے ہاتھ قلم کانپنے لگا
اشکِ رواں بنی ہے مری سوچ دیدہ ور

لکھّوں عظیم سانحہ لفظوں کے نور سے
قطرے لہو کے ٹپکیں گے دستِ شعور سے

O
یہ کیا کہ آسماں سے ٹپکنے لگا لہو
اشکوں سے بن رہی ہے سرِ شعر آبجو

تاریک ہورہی ہیں گھٹا ٹوپ ظلمتیں
میرے قلم تُو اشکِ ندامت سے کر وضو

پامال ہوگیا ہے مرا مشرقی چمن
ہونٹوں پہ جم گئی ہے بہاروں کی آرزو

جلاد سونگھتے ہیں مسلمان ہے کہاں
وحشت برس رہی ہے اندھیروں میں چار سو

تاریخ کہہ رہی ہے کہ پہچانیئے انہیں،
یہ غزنوی کھڑے ہیں برہمن کے روبرو

زنجیر پا چلے ہیں ستاروں کے قافلے
ظلمت کدوں میں آج یہ ہوتی ہے گفتگو

یہ قوم جس کے چہرے پہ عبرت کے ہیں نشاں
اس قوم کو تھی مرگِ مسلسل کی جستجو

کرتی ہے بین سسکیاں بھرتی ہوئی ہوا
نمناک ہورہی ہے شگوفوں کی بھی نمو

آہ، اے زمین! پوچھ کبھی آسمان سے
کس کے لہو سے تیرا کلیجہ ہے سرخرو

ڈھاکہ اداس سہلٹ و کھلنا ہیں سوگوار
جشنِ طرب منائے گا اب تو مرا عدو

کوئی بتائے میکدہ کیونکر اجڑ گیا
بکھرے ہوئے ہیں جام تو ٹوٹے ہوئے سبو

اپنے لہو میں ڈوب گئی شبنمی ہوا
ویران ہوگیا ہے گلستانِ رنگ و بو

لات و ہبل نے عصمتِ و محراب لوٹ لی
مٹی میں مل گئی ہے مسلماں کی آبرو

کیونکر سکوتِ مشرقی بنگال مان لوں
چھینٹے اڑیں گے میری عقیدت کے کوبکو

غم کے سمندروں میں جلاتا ہوں مشعلیں
پھر چونک کر مَیں خود ہی بجھاتا ہوں مشعلیں

O
کی ہے رقم لہو سے حرم تیری داستاں
مشرق کے ساحلوں پہ جلادی تھیں کشتیاں

تکبیر سے بلند ہوئی ہیں صداقتیں
نغمہ وہی ہے ساز! ترے واسطے اذاں

کس نے چرا لیے مری آنکھوں کے سات رنگ
کس نے سمیٹ لیں مرے ہونٹوں کی شوخیاں

کھلنا کے بام و در پہ مرے خون کی بہار
مَیں نے کمال پور کو دیا عزمِ بے کراں

سلہٹ میں چاٹگام میں میرے نفس کی ضو
جیسور حریت کے تقدس کا پاسباں

مَیں نے رکھی ہے لاج احد اور حنین کی
دیناج پور میری شجاعت کا ہے نشاں

محور ہے میرے ذوقِ شہادت کا آج بھی
یہ راجشاہی میری امنگوں کا ترجماں

خالدؓ کے زورِ بازو سے نسبت مجھے بھی ہے
مغرب کی سرحدیں مرے جذبوں کی راز داں

ڈھاکہ حدیثِ عشق کے عنواں کی آبرو
کس نے اڑا دیں تیرے تقدس کی دھجیاں

ہر خار میرے خون کی رنگینیوں میں گم
ہر پھول کی نمو میں مرا ذوق پرفشاں

برق و شرر جلاتے رہیں آشیاں مرے
صیّاد لوٹتے رہے گلشن میں مستیاں

بندوق میرے ہاتھ سے چھینی گئی مگر
دشمن کی تو اڑا دیں بہر حال بوٹیاں

میری ندامتوں کی دعائیں قبول ہوں
جائے نہ رائیگاں کہیں یہ خونِ کشتگاں

حیران ہوں میں پانسہ پلٹ کس طرح گیا
حیران ہوں ہوا لیے پھرتی ہے اب کہاں

ٹوٹی ہے میرے ہاتھ میں شمیر کیا کہوں
پہنائی کس نے ہے مجھے زنجیر کیا کہوں

O

ہم سے یہ روحِ قائد اعظم ہے کہہ رہی
تُم نے لٹا دی میرے چراغوں کی روشنی

صدیوں میں طے کیے تھے یہ ملت نے فاصلے
اب کیا ہوا کہ منزلِ امید ہار دی

ایماں کا لٹ گیا ہے سرِ راہ قافلہ
تنظیم و اتحاد کی بستی اجڑ گئی

اے کشورِ وقار کی عظمت کے وارثو!
غیرت تمہاری آج سے پتھر کی ہوگئی

یہ پاک سر زمین وہی سر زمین ہے؟
یا منزلِ مراد ہے تصویرِ بیکسی

روتی ہوئی بہار کو مَیں کیا جواب دوں
گلشن کہاں گئی ترے چہرے کی دلکشی

اب آسماں پہ چاند سلگتا ہے رات بھر
اب کہکشاں سے نور کی مشعل ہے گر پڑی

تم ناخدانہ بن سکے صد حیف، ناخدا
اپنے سفینے آپ ڈبوتے نہیں کبھی

خادم کوئی عوام کا پیدا نہ ہوسکا
کرتے رہے ہو بیٹھ کے کرسی پہ افسری

چھائی تعصبات کی آندھی نگر نگر
ہر سمت دشمنی کے ہیولوں کی تیرگی

فرزند بن گئے تھے تم اپنی زمین کے
نفرت کی آگ پھیل کے دیوار بن گئی

اپنی حماقتوں کا اب انجام دیکھ لو
جس شاخ پر تھا اپنا نشیمن وہ کاٹ لی

اس میں جلے گا اس کا نشیمن بھی ایک دن
جس آگ کو ہوا ہے برہمن نے آج دی

اس ملک کی بنا تھا فقط لا الہ کا نور
تم بت فروش بن گئے بنیاد رہ گئی

پھر اہل کارواں کو وہی نور چاہیے
اس تیرگی میں نور کا دستور چاہیے

O

اقبال، پیرِ رومیؒ! ہوا ہے نڈھال غم
میرے بدن کے زخم کا ہے پیرہن، الم

کب چارہ ساز بن سکی جمعیتِ امم
ٹوٹا ہوا ہے نوعِ بشر تیرا جامِ جم

سوزِ نفس کی آگ میں جلتی ہیں دھڑکنیں
ممکن نہیں کہ میری خرد کا رہے بھرم

عشرت کدوں میں مسندِ تقدیس بہہ گئی
یورپ کی منڈیوں میں مٹی عظمتِ حرم

ڈوبی ہیں سسکیوں یں عرب کی نیابتیں
اشکوں میں خون بن کے جلی شوخیٔ عجم

ہر دل میں حسرتوں نے بسائی ہیں بستیاں
سمجھا ہے کون عہد گریزاں کے زیر و بم

ابلیس نے بتوں کو سہارا دیا ہے آج
میرے خدا کہاں ہے تیرے نور کا قدم

تہذیب خود کشی کے کنارے پہ آگئی
اب منتظر ہے مغربی بقراط کا عدم

جو پرفشاں تھا بتکدۂ ہند پر کبھی
اب سرنگوں ہے سطوتِ قوی کا وہ علم

اس عقلِ بے شعور نے دھوکہ دیا مجھے
اور عشق نے نقاب اتارا ہے دم بدم

مَیں نے خودی کی موت کا نظارا بھی کیا
شاہیں ترے کٹے ہوئے بازو کی ہے قسم

طیبہ سے تا بہ کھلنا سبھی اشکبار ہیں
ہے سوگوار وادیٔ خیبر میں طو رخم

مفلوج ہو کے رہ گئیں سوچوں کی قوتیں
سلجھائے تو نے شہرِ نگاراں کے پیچ و خم

باغی ہوا ہے آج سے اقبالِ سوگوار
آنسو لہو کے روئے گی اب میری چشمِ نم

اک آگ لگ رہی ہے غموں کی صلیب سے
آفاق جل نہ جائے فغانِ غریب سے

O
اک ایک میرے باغ کی پتی بکھر گئی
اہلِ وطن پہ آج قیامت گذر گئی

لوٹی ہے کس نے میری امنگوں کی چاندنی
ڈھونڈو کہاں ہے میرے وطن کی سحر گئی

اب کس کے واسطے میں تراشوں مجسمے
تحقیق کی نمو کی ضرورت ہی مر گئی

آنکھوں کو کھول کر میں گلستاں میں کیا کروں
جب آرزوئے دید ہی اے چشمِ تر گئی

گذری ہے جب بھی بادِ صبا اشکبار تھی
دامن رگِ جمال کا کانٹوں سے بھر گئی

تاریخ کی جبیں پہ یہ دھبہ سا پڑ گیا
یہ قوم اختلافِ نظر سے بکھر گئی

مل کر تلاش آؤ کریں اپنے نقشِ پا
کس دوسرے جہاں میں متاعِ نظر گئی

ملت کے شوق و عزمِ مسلسل کے باوجود
میرے وطن کی اندھی قیادت تھی ڈر گئی

جب بتکدے میں میرا بدن منقسم ہوا
طیبہ سے سوئے عرش تک آہِ جگر گئی

خونِ شہید ایک مجسم سوال ہے
اب کے دعائے شوق مری بے اثر گئی

اٹھا تھا کربلا سے نواسہ رسول کا
لیکن ندی فرات کی پل میں اتر گئی

کس کی حماقتوں کی سزا پا رہے ہیں ہم
کس کی انا چمن کو ہے تاراج کر گئی

دامن پکڑ کے پوچھتی ہے مادرِ وطن
میرے جوان بیٹوں کی غیرت کدھر گئی

اتریں گے چاند پھر کبھی میرے دیار میں؟
کرنوں کی جستجو میں نگاہِ سحر گئی

کیا لے کے بارگاہِ رسالت میں جاؤں گا
فرطِ حیا سے منہ کہاں اپنا چھپاؤں گا

O
اے حسنِ کائنات کے محور رخ یقیں
چشمِ کرم، اماں نہیں ملتی ہمیں کہیں

حاضر ہوئے ہیں اشکِ ندامت لیے ہوئے
جز آپ کے نہیں کوئی غم خوار، شاہِ دیں!

دستِ کرم کہ ظلم کے مارے ہوئے ہیں ہم
سہمے ہوئے کھڑے ہیں غلامانِ کمتریں

ڈوبا ہے آج مشرقی بنگال خون میں
پرسانِ حال کوئی بھی اس حال میں نہیں

اغیار لوٹتے ہیں دل و جاں کی آبرو
پہلے ہی غاصبوں کے تصرف میں کیا نہیں

لات و ہبل نے مارا ہے شب خون، یا نبیؐ
صدیوں سے ڈس رہے ہیں ہمیں مارِ آستیں

بازو کٹے ہیں ظلم کی تلوار سے، حضورؐ
اپنے وطن میں اجنبی ہیں آج غم نشیں

یہ جرم ہے کہ نام جو لیتے ہیں آپؐ کا
جائیں کدھر بتایئے سردارِ مرسلیں!

شام و سحر اذان کے نغموں کی گونج ہے
کانوں سے چھین لیں گے یہ احساسِ نغمگیں

اس ملک کی جبین کا جھومر ہے لا الہ
یہ سر زمیں ہے عظمتِ قرآں کی سر زمیں

کیونکر مٹے نہ دہر سے اسلام کا نشاں
چھائے ہوئے ہیں آبروئے دیں پہ منکریں

فریاد ہے حضورؐ یہ فرمایئے، حضورؐ
ہے تنگ آج آپؐ کی امت پہ یہ زمیں

آنسو ہمارے پونچھنے والے بھی آپؐ ہیں
کس ابتلا میں دیکھئے ہیں آج شاہِ دیں

کب رحمتیں حضورؐ کی آئیں گی جوش میں
کب ہوگی ختم رات یہ اے نورِ اولیں

پامال زندگی کو ہو نقشِ قدم عطا
خیبر میں جو دیا تھا وہی ہو علم عطا

O
محشر بپا ہے حشر سے پہلے مرے خدا
میری متاعِ ضبطِ فغاں لوٹ ساقیا!

بندے گناہ گار، سیہ کار ہی سہی
ہم بیکسوں کو جرمِ ضعیفی کی یہ سزا!

اندلس کے ساحلوں کی ہوا پوچھتی رہی
طارق! بتا کہاں ہے مسلمان کا خدا

غافل رہے ضرور پربھولے نہ تھے تجھے
کوتاہیوں پہ قہر و غضب کی یہ انتہا

تیرے ہی نام کے لیے کٹتے رہے بدن
تیری ہی راہ میں ہے شہیدوں نے سر دیا

لکھّی حدیثِ عشق کی تفسیر خون سے
کس کی شجاعتوں سے ہوا طے یہ مرحلہ

چلتے رہے حسینؓ کی سنت پہ قافلے
ہر موڑ پر سلگتا رہا خونِ کربلا

بھولے نہ تھے بخارا، سمر قند ابھی مجھے
کانوں میں گونج اٹھتی غرناطہ کی صدا

سنتا نہیں تو قرطبہ کی سسکیوں کی گونج
ویرانیوں سے کیا ترا بھی دل نہ دکھ سکا

رسوا ہوں نام لیوا ترے اس جہان میں
اے مالکِ قضا ہے یہی دین کی بقاء ؟

بغداد سوگوار ہے ڈھاکہ کی شام پر
اسلام کے حصار کا مینار گر گیا

پروردگار! تیری رضا بھی ہے کیا یہی
ویران مسجدوں پہ مسلط رہے قضا

آباد ہو حرم ترا لات و منات سے
شاید یہی ہے منبر و محراب کی بنا

آقائے نامدارؐ ہیں بے تاب و مضطرب
جبریل بارگاہِ رسالت سے ہو کے آ

پروردگار عشق ہمیں لازوال دے
جو ظلمتوں کے بحر سے ہم کو اچھال دے

(ماہنامہ ’’بصیر‘‘ کراچی مئی 1972ء)