دعائے آخر شب بن کے چمکی لو غلامی کی- مطاف نعت (2013)

دعائے آخرِ شب بن کے چمکی لو غلامی کی
شبِ وجدان میں اتری تجلی آشنائی کی

مجھے خوشبو کا جھونکا لے گیا سرکار ﷺ کے در پر
سلامِ شوق کے پھولوں نے میری رہنمائی کی

فضا میں رقص کرتا، تیرتا تھا طوفِ گنبد میں
پرِ جبریل نے قلبِ حزیں کی پر کشائی کی

درِ محبوب ﷺ پر توبہ نشینی شرطِ اوّل ہے
سند پہلے سے دے رکھی ہے مولیٰ نے معافی کی

ندامت میں وہاں آنکھوں کے قلزم لے کے پہنچا تھا
شفیعِ محتشم ﷺ نے لاج رکھ لی اپنے عاصی کی
یہاںدن رات مولیٰ خوں کی ہولی کھیلی جاتی ہے
رہے آقا اماں میں سا لمیت میری دھرتی کی

جو رہبر ہے، لٹیرا ہے! دہائی! یا رسول اللہ!
سزا دی جاتی ہے انساں کو اس کی بے گناہی کی

بھنور میں پھنس گئی امت کی ناؤ یا رسول اللہ!
کرم آقا ﷺ ! کوئی صورت بنے مشکل کشائی کی

مجھے پورا یقیں ہے صبحِ نو آخر طلوع ہو گی
ہمارے سر پہ چھاؤں ہے تجلی والی کملی کی

کِھلی ہیں نور کی کرنیں، ہیں مہکی نعت کی کلیاں
ترانے ہیں درودوں کے، یہ محفل ہے سلامی کی

نگاہ شوق ٹھہری سبز گنبد کے نظارے پر
مری تشنہ نگاہی نے جنوں کی سرفرازی کی

مرے آنگن میں پتوں پر ہوئے تحریر نام ان کے
کہ جن سے مشعلیں روشن ہوئیں ساری خدائی کی
کہا دربان سے میں نے ’’محمد! التماس‘‘، اُس نے
بٹھایا مجھ کو چوکھٹ پر جو مَیں نے اُس سے زاری کی

مری آنکھوں سے دریا پھوٹ نکلا جب ندامت کا
ہوئی برسات نازل مجھ پہ لطفِ مصطفائی کی

عزیزؔ اکثر چھپا لیتا ہے چہرہ شرمسار اپنا
جہاں بھی ہو، اِسے عادت ہے اب مردم گریزی کی