تیرگی کا سمندر ہے چاروں طرف،- ورد مسلسل (2018)

تیرگی کا سمندر ہے چاروں طرف، روشنی یا نبی ﷺ میرے گھر بار پر
کہکشاں، چاند، جگنو، ستارے ، دھنک، حرفِ روشن مرے طشتِ افکار پر

سرخیاں خوں میں تر ہیں شہِ مرسلاں ﷺ ، سر جھکائے کھڑی ہے مری داستان
چند آنسو گرے بَین کرتے ہوئے، آج صبح کے رنگین اخبار پر

عافیت کے غبارے ہواؤں میں ہوں، امن کی فاختائیں فضاؤں میں ہوں
ٹوٹ کر ابرِ رحمت برستا رہے، میرے جلتے ہوئے ہر چمن زار پر

میرے سر پر خطاؤں کی ہیں گٹھڑیاں، ہر طرف اڑ رہی ہیں مری دھجیاں
یا نبی، ﷺ لطف فرمائیے آج بھی، کس قدر بوجھ ہے اک گنہگار پر

میرے احوال اس کو بتا دیجئے، میرے زخموں سے چادر ہٹا دیجئے
اب ہوائے مدینہ اِدھر آئی ہے، چشمِ تر اپنی رکھ دوں میں دیوار پر

تیرے اندر ہوس کی کبھی آگ پر، چند چھینٹے خنک پانیوں کے پڑیں
کاش برسے غبارِ مدینہ کبھی، امتِ بے نوا تیرے کردار پر

خوشبوؤ، تتلیو، جگنوؤں، بلبلو! التجا ہے غلامانِ سرکار ﷺ کی
شہرِ طیبہ سے لوٹو تو خاکِ شفا، تم بھی رکھنا کسی دستِ بیمار پر

یاخدا، یاخدا، التجا التجا، حبِّ سرکار ﷺ کے بحر و بر ہوں عطا
تیری رحمت کے بادل برستے رہیں، تاجدارِ حرم ﷺ کے وفادار پر

میرے آنگن میں کرنیں اترتی رہیں، میرے دامن میں کلیاں نکھرتی رہیں
گنبدِ سبز کے موسم سبز سے پھول گرتے رہیں چشمِ بیدار پر

رات اسریٰ کی ہے، بات سدرہ کی ہے، جبرئیلِ امیں کے مقدّر کی ہے
آنکھ نیچی رہے اور نیچی رہے، آنکھ ٹھہرے گی کیا اُن ﷺ کی رفتار پر

جو ریاضؔ ایک دیوانہ طیبہ کا ہے قافلے میں نظر وہ نہیں آرہا
رقص کرتے ہوئے کہہ رہا تھا ابھی، جان قرباں مدینے کے آثار پر