یا خدا!- خلد سخن (2009)

یا حسنِ نو بہار کی رعنائی چھین لے
یا مجھ سے میرا ذوقِ پذیرائی چھین لے

اس عہدِ بے شعور میں جی کر مَیں کیا کروں
جو آدمی سے حکمت و دانائی چھین لے

اترا ہے جو سکوت کا لمحہ سرِ چمن
ڈر ہے کہیں نہ درد کی شہنائی چھین لے

جس نے ہوس کی آگ سے دامن ہے بھر لیا
اُس چشمِ انتظار سے بینائی چھین لے

ایسا نہ ہو کہ موسمِ بے آب اس برس
میری زمیں کی ساری توانائی چھین لے

میں ملتمس ہوا تھا کسی در پہ آج بھی
یا رب! تُو مجھ سے قوتِ گویائی چھین لے

نعتِ حضورؐ جس کی زباں پر نہیں رقم
مولا! قلم سے وہ زرِ زیبائی چھین لے