لکھے گی جب بھی حمد ہی لکھے گی روشنی- کتابِ التجا (2018)

مَیں ڈھونڈتا ہوں بچوں کے چہروں کی دلکشی
اترے مرے خدا! مرے آنگن میں چاندنی

گرد و غبارِ شامِ غریباں سروں پہ ہے
یارب! ترے کرم کی ضرورت ہے ہر گھڑی

دیوارِ زر کے سائے ہیں چاروں طرف محیط
رکھنا بھرم کسی کی غریبی کا آج بھی

احوالِ روز و شب کا مَیں کیا تذکرہ کروں
آنکھوں سے لمحہ لمحہ ٹپکتی ہے بے بسی

یارب! اداس لمحوں میں کر حوصلہ عطا
جینے کی آرزو تو ہے سینے میں مر چکی

قبضے میں جن کے رزق ہے میرا دیا گیا
وہ میرا پیرہن بھی بناتے ہیں کاغذی

دروازہ ہر مکاں کا مقفّل ہے یاخدا!
پھرتے ہیں لوگ کاسہ اٹھائے گلی گلی

اک اجنبی سے، میرے خدا! کیا بیاں کروں
اندر کے آدمی سے تعارف نہیں ابھی

اس کی سرشت میں ہے سجودِ حرم کا نور
لکھے گی جب بھی حمد ہی لکھے گی روشنی

اب کے برس بھی سر پر گھٹائیں کرم کی ہیں
اب کے برس بھی کشتیاں میری ہیں کاغذی

کچھ اس طرح سے مجھ کو اذیّت ملی ریاضؔ
آنگن میں بڑھ گئی ہے ہواؤں کی برہمی