ذات تیری اپنے بندوں پر ازل سے ہے رحیم- کتابِ التجا (2018)

ہے دعا تجھ سے، خدائے آسماں، ذاتِ قدیم!
میری نسلیں بھی ہوں پابندِ صراطِ مستقیم

ذرّے ذرّے کو دیا تُو نے عبادت کا گداز
جگنوؤں کے ساتھ سجدے میں رہے بادِ شمیم

مَیں ترے محبوبؐ کا ادنیٰ سا ہوں مدحت نگار
آرزو ہے تُو رہے لوح و قلم ہی میں مقیم

تتلیاں مصروف ہیں تیری ثنا و حمد میں
ذکر کرتی ہے بیاں تیرا گلستاں میں نسیم

مَیں انا کے ہاتھ میں دم توڑ دوں گا ایک دن
ساعتِ مجہول میں رہنے لگا ذوقِ سلیم

لغزشوں، کوتاہیوں میں ہوں ملوّث رات دن
گٹھڑیاں سر پر گنہ کی ہیں مرے ربِّ کریم!

دے ارادے باندھتے رہنے کی عادت سے نجات
یاخدا! لوحِ عمل پر لکھ کبھی عزمِ صمیم

کیا مرے ٹوٹے ہوئے لفظوں کا عجز و انکسار
کیا مرے اشکِ مسلسل، کیا مناجاتِ ضخیم

چور زخموں سے خرد انسان کی ہے یاخدا!
ذات تیری اپنے بندوں پر ازل سے ہے رحیم

ہر قدم پر کتنی گرہوں میں ہوں مَیں الجھا ہوا
گتھیاں سلجھا رہا ہے تیرا قرآنِ حکیم

ان کی قبروں پر مسلسل رحمتیں برسا کریں
حافظ(۱) و تائب(۲)، مظفر(۳)، خالد(۴) و مظہر(۵)، ندیم(۶)

دل کی ہر دھڑکن شریکِ حمد ہے میری، ریاضؔ
دل کی ہر دھڑکن بھی ہے تخلیقِ رحمانِ عظیم