نصابِ کربلا- شعورِ کربلا (2018)

مَیں ریگ زارِ شعور و ہنر میں صدیوں سے
سراغِ حرفِ صداقت میں ہوں، مجھے بھی ملے
علَم، شبابِ قلم کا جو استعارہ ہے
علَم کتابِ وفا کا جو بابِ روشن ہے
نقیبِ صبحِ بہارِ یقین و عزم و عمل
ملوکیت کا کفن، پیرہن عدالت کا
جو آبِ سرد ہے تشنہ لبی کے خیمے میں
فضائے جبر میں جو سر بلند آج بھی ہے
یزیدیت کے عساکر، یہ قاتلوں کے ہجوم
گلی گلی مرے بچوں کو ڈھونڈنے نکلے
فصیلِ شہر پہ ہنگام لشکروں کا ہے
ہراس و خوف کے مقتل میں ہے علی اصغر
لبوں پہ مہر لگی ہے خموش رہنے کی
پڑے ہیں قفل دریچوں میں چشمِ پُرنم کے
اداس، خوف زدہ ہے فضائے ارضِ دعا
نظامِ کفر مسلسل محیطِ فکر و نظر
حسینؓ، آپ کے دامن سے چن رہا ہوں چراغ
یہ اِس لئے کہ مرے گھر میں گھُپ اندھیرا ہے
یہ اس لئے کہ ابھی حرفِ حق کی لذت سے
مرے وجود، مری روح کی شناسائی
ملی نہیں کہ علَم مَیں بھی تھام لوں بڑھ کر
غبارِ تیرہ شبی کب مری وراثت تھا
غبارِ تیرہ شبی کب مری وراثت ہے
ہتھیلیوں پہ چراغاں مرا نصیبہ تھا
ہتھیلیوں پہ چراغاں مرا نصیبہ ہے
مگر یہ زندہ حقیقت ہے سبطِ پیغمبر ﷺ
حصارِ مرگ میں کل بھی مرا ٹھکانہ تھا
حصارِ مرگ ہی میں آج بھی ٹھکانہ ہے
منافقت کی سیاہی سے کیا سحر ہو گی

نزول حرفِ غلط کا ورق پہ جاری ہے
عجیب نزع کا عالم قلم پہ طاری ہے
حسینؓ ابنِ علیؓ شہرِ صبر کی رونق
مسافرت کی جلالت کا تو امیں ٹھہرا
تضاد کب سے فروزاں ہیں میری آنکھوں میں
مجھے یقین کی دولت نصیب ہو جائے
مَیں ریگ زارِ شعور و ہنر میں صدیوں سے
حسینؓ، آپ کی راہوں سے چن رہا ہوں گلاب
کہ میرے گھر کی منڈیروں پہ پیاس اُگتی ہے
کہ میرے پھول سے بچے تڑپتے رہتے ہیں
حسینؓ، آپ کے سر کی قسم کہ نیزے پر
مرے لہو کو اچھالا ہے وقتِ برہم نے
نصابِ کرب و بلا پھر سے مجھ کو ازبر ہو
یہ آرزو ہے پیمبر ﷺ کے ایک شاعر کی

نظر میں جسم مبارک کی ہر خراش رہے
تمام عمر، حسینؓ، آپ کی تلاش رہے