پیش لفظ- اکائی (2018)

یک مصرعی نظم شاعری کی ایک جدید قسم ہے ۔ اس کی ابتدا چترال سے ہوئی۔ رحمت عزیز چترالی نے پہلی یک مصرعی نظم 1966 میں لکھی اور اس کے بعد 2010 میں رؤوف خیر اور دیگر پاکستانی شعرا نے بھی یک مصرعی نظمیںکہیں۔ اردو اور کھوار زبان میں سب سے پہلی یک مصرعی نظمیں رحمت عزیز چترالی نے کہی۔

ادب میں مختصر سے مختصر ترین ہئیتوں کا سفر ہمیشہ سے جاری ہے۔ مختلف اصناف و اسالیب کو اختصار کے ساتھ قارئین کے سمنے پیش کرنا ایک منفرد فن بنتا جا رہا ہے۔ مختصر کہانیوں اور افسانوں کے بعد سو الفاظ کی کہانی نے رواج پایا اور دھرے دھیرے بات پچاس اور پھر بیس لفظوں کی کہانی تک جا پہنچی۔

یک مصرعی مگر جامع مفہوم کی حامل شاعری کے بانی شاید سعود عثمانی ہی ہیں۔ ان کی ایک یک مصرعی نظم ہے : ’’دل کا اپنا دماغ ہوتا ہے‘‘ یہ ایک خوبصورت کاوش ہے۔ ابی مکھنوی کی ایک یک مصرعی نظم یو ہے : ’’زوال اپنے عروج پر ہے‘‘۔

یہ تویک مصرعی نظم کا ایک مختصر تعارف ہے ۔ اردو ادب میں اس کی ترویج ابھی وقت لگے گا۔ سلطانِ نعت ریاض حسین چودھریؒ نے اردو نعت میں یک مصرعی نظم کی ابتدا کی اور اس کا نام اکائی رکھا۔ ریاض کی اکائیاں نعت کی جملہ خصوصیات کا مرقع نظر آتی ہیں۔ وہی وارفتگی، خود سپردگی، شبابِ اظہار، خوبصورت اور جامع علامات اور رعایتیں، تشبیہات اور استعارے جو ریاض کی غزل نعت اور نظم نعت کی پہچان ہیں اور قطعات اور ثلاثیوں میں تجلی بار ہیں ان کی اکائیوں میں بدرجی اتم نمو پذیر ہیں۔ ان کا اظہار دل کو اپنی گرفت میں کیا لیتا ہے کہ چشمِ نم سے تحسین ٹپکنے لگتی ہے۔

میں یہاں نمونے کے طور پر ان کی اکائی ’’فرشتۂ اجل سے التماس‘‘ سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔

ذرا ٹھہرو!
ندامت کے مَیں اشکوں سے وضو کر لوں
ذرا ٹھہرو!
مَیں اپنی التجائیں رکھ لوں سجدوں میں
ذرا ٹھہرو!
سجودِ آخری میری جبیں میں ہیں
ذرا ٹھہرو!
مطافِ کعبۂ اقدس میں ہے شاعر
ذرا ٹھہرو!
دعائیں ملتزم پر آبدیدہ ہیں
ذرا ٹھہرو!
مجھے فرصت ہے کب آقا ﷺ کی مدحت سے
ذرا ٹھہرو!
مَیں ہونٹوں پر درودِ آخری لکھ لوں
ذرا ٹھہرو!
مدینے کی مَیں گلیاں چوم لوں شب بھر
ذرا ٹھہرو!
قلم کو ساتھ لے لوں مَیں دمِ رخصت
ذرا ٹھہرو!
ہیں مصروفِ ثنا سب دھڑکنیں دل کی
ذرا ٹھہرو!
عمامہ باندھ لوں سر پر غلامی کا
ذرا ٹھہرو!
خدا حافظ مَیں کہہ لوں اپنے بچوں کو
ذرا ٹھہرو!
کفن لے لوں غبارِ راہِ طیبہ کا
ذرا ٹھہرو!
مدینے سے ہوائیں چل پڑی ہوں گی

ریاضؔ ہمیں جدید نعت نگاری کی امامت کا عمامہ باندھ کر اکائیوں کا حسن اظہار لوح و قلم کے سپرد کر کے فرشتۂ اجل کے ساتھ چل دئیے، یہ کہتے ہوئے کہ :

مَیں اکثر سوچتا رہتا ہوں اے کونین کے مالک
تری جنت مدینے سے کہاں تک مختلف ہو گی

شیخ عبد العزیز دباغ