آپ کے در کی دربانیاں چھوڑ کر، میں کہاں جاؤں گا، میں کہاں جاؤں گا- نصابِ غلامی (2019)

آپ کے در کی دربانیاں چھوڑ کر، میں کہاں جاؤں گا، میں کہاں جاؤں گا
ملکِ مدحت کی سلطانیاں چھوڑ کر، میں کہاں جاؤں گا، میں کہاں جاؤں گا

مجھ پہ اتنا کرم، میرا رکھا بھرم، سرنگوں ہے جبیں، سرنگوں ہے قلم
چشمِ حیرت کی حیرانیاں چھوڑ کر، میں کہاں جاؤں گا، میں کہاں جاؤں گا

خوشبوئیں وجد میں، رقص میں تتلیاں، میرے دامن میں سجتی رہی کہکشاں
میرے آقا ﷺ ، یہ تابانیاں چھوڑ کر، میں کہاں جاؤں گا، میں کہاں جاؤں گا

پھول لطف و عطا کے کھلے ہیں بہت، زخم میرے بدن کے سلے ہیں بہت
رحمتوں کی یہ ارزانیاں چھوڑ کر، میں کہاں جاؤں گا، میں کہاں جاؤں گا

اس برس بھی ملا اذنِ نعتِ نبی، اس برس بھی قلم کو ملی روشنی
بام و در پر گل افشانیاں چھوڑ کر، میں کہاں جاؤں گا، میں کہاں جاؤں گا

میں حصارِ کرم میں ہوں، یامصطفیٰ ﷺ ، میں بہارِ کرم میں ہوں یامصطفیٰ ﷺ
آسماں کی نگہبانیاں چھوڑ کر، میں کہاں جاؤں گا، میں کہاں جاؤں گا

دل گرفتہ ہیں اہلِ وطن یانبی ﷺ ، روشنی یانبی ﷺ ، روشنی یانبی ﷺ
شامِ غم کی پریشانیاں چھوڑ کر، میں کہاں جاؤں گا، میں کہاں جاؤں گا

اِس طرف کربلا، اُس طرف کربلا، یانبی ﷺ ہر طرف ہے قضا ہی قضا
گرمیٗ خونِ افغانیاں چھوڑ کر، میں کہاں جاؤں گا، میں کہاں جاؤں گا

زخم خوردہ ہیں امت کے پیر و جواں، کب سے ہیں دربدر یاشہِ دوجہاں
جاں نثاروں کی قربانیاں چھوڑ کر، میں کہاں جاؤں گا، میں کہاں جاؤں گا

ابرِ رحمت مسلسل برستا رہے، جام عشق و وفا کا چھلکتا رہے
سانس لینے کی آسانیاں چھوڑ کر، میں کہاں جاؤں گا، میں کہاں جاؤں گا

مجھ کو آسودگی کا عمامہ ملے، میری ہر شاخ پر روشنی کھِل اٹھے
یانبی ﷺ ، یہ پشیمانیاں چھوڑ کر، میں کہاں جاؤں گا، میں کہاں جاؤں گا

میری تشنہ لبی کا مداوا ہوا، میری بنجر زمیں کو ملا حوصلہ
باد و باراں کی بارانیاں چھوڑ کر، میں کہاں جاؤں گا، میں کہاں جاؤں گا

یہ سلامِ محبت مرا لیجئے، چارہ گر، میری چارہ گری کیجئے
ہر طرف نور افشانیاں چھوڑ کر، میں کہاں جاؤں گا، میں کہاں جاؤں گا

اس قدر دلکشا ساعتیں مہرباں، اس قدر لالہ زاروں کی شادابیاں
ہر عطا کی فراوانیاں چھوڑ کر، میں کہاں جاؤں گا، میں کہاں جاؤں گا

میری سانسوں میں کلیاں مہکتی رہیں، میرے آنگن میں رم جھم برستی رہے
بحرِ رحمت کی جولانیاں چھوڑ کر، میں کہاں جاؤں گا، میں کہاں جاؤں گا

مَیں ریاضِؔ ادب کا گنہ گار ہوں، مَیں ریاضِ ادب کا خطاکار ہوں
پر قلم کی قلمدانیاں چھوڑ کر، میں کہاں جاؤں گا، میں کہاں جاؤں گا