سہ نعتیہ: آنکھیں بچھا دو اپنی سرکار ﷺ کی گلی ہے- نصابِ غلامی (2019)

آنکھیں بچھا دو اپنی سرکار کی گلی ہے
ہر ہر قدم پہ روشن خورشیدِ آگہی ہے

ہر زائرِ نبی ہے خوش بختیوں کا پیکر
خوشبو چراغ لے کر، ہر راہ میں کھڑی ہے

لیتے ہیں چاند تارے آ کر تری بلائیں
چہرے پہ تیرے کیسی دلکش یہ روشنی ہے

حرفِ ادب کی جس پر بکھری ہوئی ہے شبنم
کلکِ ثنا یقیناً اُس پھول سے بنی ہے

ہر ہر ورق پہ میری آنکھیں سجی ہوئی ہیں
سر پر مرے قلم کے دستارِ آگہی ہے

گو موسمِ خزاں میں مرجھا گئی ہیں کلیاں
اُن ﷺ کے طفیل لیکن ہر شاخِ جاں ہری ہے
عزم و عمل کے سورج امت کو پھر عطا ہوں
سرکار ﷺ ، تیرگی کی افتاد آ پڑی ہے

احساس مر گیا ہے، جذبات مر گئے ہیں
پھولوں بھری زمیں پر پتھر کا آدمی ہے

روضے کی جالیوں کا کیا دلکشا ہے منظر
مشعل ریاضؔ میرے اندر کی جل اٹھی ہے

*

مدح و ثنائے مرسل ﷺ مقصودِ زندگی ہے
اک مشعلِ محبت افکار میں جلی ہے

دروازے کھول دیجے، رحمت کی یہ گھڑی ہے
ٹھنڈی ہوا چمن میں طیبہ سے آ رہی ہے

تنہا کہاں ہوں اُن ﷺ کی رحمت ہے ساتھ میرے
طیبہ کے راستوں سے میری بھی دوستی ہے

اس کو قبول کر لیں یہ التجا ہے میری
برسوں کے بعد آقا ﷺ میری یہ حاضری ہے

کشکولِ آرزو میں آنسو بھرے ہوئے ہیں
شاید سلام میرا طیبہ میں آخری ہے

ہر لفظ پھول بن کر لب پر کھلا ہے آقا ﷺ
اس میں غبارِ شہرِ طیبہ کی دلکشی ہے

ہر راستے کا پتھر فکر و نظر کی الجھن
آقا ﷺ حضور ﷺ ، میرے اندر کی سرکشی ہے

کیا سدِّ باب ہو گا موجوں کی برہمی کا
کشتی ہر ایک آقا ﷺ امت کی کاغذی ہے

خوشبو ریاضؔ میں نے رکھی ہے ہر سخن میں
ہر اک بیاضِ مدحت پھولوں سے بھر گئی ہے

*

بادِ شمیم اُن ﷺ کے در پر مجھے ملی ہے
سر پر غبارِ شہرِ دلکش کی اوڑھنی ہے

قرآں کلامِ ربی، قرآں کتابِ آخر
قرآن کے مطابق تُو آخری نبی ﷺ ہے
طائف کے سرغنوں کو دیتے رہے دعائیں
کیا درگذر کی خو ہے، کیا شانِ دلبری ہے

طیبہ کے باسیوں پر سائے ہیں رحمتوں کے
ہر ہر سخن ہے میٹھا، ہر ہر ادا بھلی ہے

کرتی ہے رقص خوشبو ہر نعتِ مصطفیٰ ﷺ میں
کلکِ ثنا ادب سے ہر وقت جھومتی ہے

غربت کا لفظ لب پر آتا نہیں ہمارے
شاعر کا دل ازل سے اے بے خبر، غنی ہے

اک دوسرے کے غم میں ہوتے نہیں ہیں شامل
دنیا میں یا الٰہی یہ کیا ہوا چلی ہے

بادِ صبا بچھا کر ہر ہر قدم پہ آنسو
دہلیزِ مصطفیٰ ﷺ کو پلکوں سے چومتی ہے

ہر وقت شکر کرتے رہنا توُ اپنے رب کا
قسمت ریاضؔ تیری کرنوں کی پالکی ہے