ربطِ غلامی: خلعتِ انوار میں سمٹے دعاؤں کا سفر- نصابِ غلامی (2019)

آب جُو پر روک دے تشنہ ہواؤں کا سفر
یاخدا! جاری ہے میری کربلاؤں کا سفر

درگذر میری خطاؤں سے، الہٰی، درگذر
ہے تلاشِ مغفرت ہی میں خطاؤں کا سفر

یاخدا! اپنے کرم کا ہی مجھے محتاج رکھ
بعدِ محشر بھی رہے تیری عطاؤں کا سفر

پیاس کی ماری ہوئی بنجر زمینوں کی طرف
یاخدا! ہو مستقل کالی گھٹاؤں کا سفر

لفظ ہونٹوں پر دعا بن کر ہیں کب سے ملتجی
اُن ﷺ کے صدقے میں ملے شبھ کامناؤں کا سفر

ہر طرف بارود کی چادر بچھی ہے، یاخدا!
ہوگا کب ممکن فضا میں فاختاؤں کا سفر

روح کا، یارب! پرندہ مضطرب ہے آج بھی
لکھ مری قسمت میں طیبہ کی فضاؤں کا سفر

نعت ہے اُن ﷺ کی محبت کے سمندر کا خروش
نعت ہے عشقِ نبی ﷺ کی انتہاؤں کا سفر

نقشِ پا روشن ہیں ہر سو سیّدِ لولاک ﷺ کے
فرض ہے ہم پر مسلمانو! خلاؤں کا سفر

عجز کی ٹھنڈی ہوا میں سانس لے ہر آدمی
اس زمیں سے ختم ہو جھوٹی اَناؤں کا سفر

ہر کسی انساں کو دے، یارب! شعورِ بندگی
میرے اندر بھی رہے تیری رضاؤں کا سفر

ہر طرف ہے ہچکیاں لیتی ہوئی زخمی ہوا
راستوں پر ہے چڑیلوں کی صداؤں کا سفر

یاخدا! ڈوبی ہوئی ہیں کشتیاں جن میں ہزار
مجھ کو بھی درپیش ہے اُن تنگناؤں کا سفر

واپسی پر تیری رحمت کے ملیں لاکھوں چراغ
ختم ہر گز ہو نہ میری التجاؤں کا سفر

مَیں ریاضِؔ خوشنوا، یارب! مصّلے پر رہوں
خلعتِ انوار میں سمٹے دعاؤں کا سفر