پر افشاں ہے مرا قلبِ تپیدہ- زر معتبر (1995)

پر افشاں ہے مرا قلبِ تپیدہ
رقم کرتا ہوں اشکوں سے قصیدہ

بفیضِ نعت ہے رشکِ بہاراں
کوئی دیکھے مرا رنگِ پریدہ

خدا کے بعد مخلوقِ خدا میں
یتیمِ آمنہ ہے برگزیدہ

وہ سردارِ گروہِ پاکبازاں
وہ عنوانِ حروفِ سرکشیدہ

وہیؐ ہے سانس کی ڈوری کا بندھن
وہیؐ اوراقِ ہستی کا جریدہ

خلاصہ ہے کتابِ ارتقاء کا
محمدؐ کل جہانوں کا عقیدہ

کھڑا ہے شاہؐ کی چوکھٹ پہ کب سے
غلامِ بے نوا، دامن دریدہ

پتہ میرا کسی سے پوچھ لینا
سگِ دربارِ سلطانِ حمیدہ

مجھے یہ حکم ہے میرے خدا کا
لکھوں نعتیں بہ کلکِ آبدیدہ

ابھی تک دور ہوں شہرِ نبیؐ سے
ابھی تک ہوں غبارِ نارسیدہ