ہوا رو پڑی ہے- روشنی یا نبی ﷺ (2018)

(8 اکتوبر 2005ء کے قیامت خیز زلزلے کے حوالے سے ایک نعتیہ نظم)

نبی جی ﷺ !
کرم ہو،
کرم ہو نبی جی ﷺ
نشیمن بھی رزقِ زمیں بن گئے ہیں
بدن ڈھانپ رکھا ہے زخموں سے ہم نے
قلم آنسوؤں سے ہے لبریز آقا ﷺ
ہوائیں خراشوں کی لے کر چنریا
اِدھر آرہی ہیں
اُدھر جا رہی ہیں
وہ بچوں کے ٹوٹے ہوئے سب کھلونے سنبھالے
ابھی کس سفر پر روانہ ہوئی ہیں
کسے ڈھونڈتی ہیں؟
وہ بچے تو مٹی کے نیچے ہوئے دفن زندہ
وہ مکتوب لکھ کر ہوا مانگتے ہیں
مگر ہم جواباً اُنہیں کیا لکھیں گے
کفن بھی تو اشکوں میں بھیگا ہوا ہے
اتر کر وہ ماؤں کی آغوش سے کس لحد کے اندھیروں میں سوئے ہوئے ہیں
کھلونے اٹھائے
ہوائیں انہیں ڈھونڈتی ہیں
مگر ہاتھ بچوں کے قبروں سے نکلیں گے کیسے؟

ہوا سوچتے سوچتے رو پڑی ہے
قلم نوحہ لکھتے ہوئے سسکیوں ہچکیوں کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہے
زمیں رو رہی ہے
کہ میں کیسی ماں ہوں
جو اپنے ہی بچوں کو کھانے لگی ہوں
حسیں وادیوں میں قیامت کے لمحے بھی خیمے لگائے ہوئے ہیں
نبی جی ﷺ
کرم ہو
کرم ہو، نبی جی، ﷺ
رکھیں اپنی اُمّت کے زخموں پہ مرہم
کنیزوں کے سر ہیں برہنہ نبی جی، ﷺ
کھلے آسماں کے تلے بے سہارا یہ کب سے کھڑی ہیں
مدینے سے بادِ صبا سر پہ خیمے کرم کے اٹھائے
ذرا جلد آئے
درِ پاک پر آج بھی یا محمد ﷺ !
کہانی وطن کی سناتے سناتے
ہوا رو پڑی ہے