پیرہن میرے قلم کو خاکِ طیبہ کا ملے- روشنی یا نبی ﷺ (2018)

حکم یہ اندر کے انساں سے ملا مجھ کو بھی ہے
امتِ مرحوم کا نوحہ لکھوں
ایک اک نوحے کا پس منظر بیاں کرتا چلوں
ایک اک آنسو کی رودادِ شبِ ماتم سنوں
غور سے جرمِ ضعیفی کا وثیقہ بھی پڑھوں
سوچتا ہوں، اتنی جرأت ہے کہاں مجھ میں ریاضؔ
مَیں تو خود جرمِ ضعیفی کا ہوا ہوں مرتکب
میرا مکتب بھی نہیں حرفِ خودی سے آشنا
خود شناسی کا نہیں مفہوم مجھ پر منکشف
میری تو اپنی کتابِ آرزو ہے زخم زخم
میرے آنسو خود صفِ ماتم بچھاتے ہیں یہاں
امتِ مرحوم کے نوحے کا خود حصہ ہوں میں
باوجود اس کے کبھی میں
لوحِ جاں پر لکھّوں گا
نوحہ زوالِ عصر کا
آج بھی امت کے زخموں سے تلاشے ہیں حروف
نعت میں لکھتا رہا ہوں بے بسی کی داستاں
امتِ مرحوم کے زخموں کے مانگے ہیں چراغ
ہو عطا آقا ﷺ، کبھی پھر
میری آنکھوں کو مواجھے میں برسنے کا شعور
ہر جواں میرے قبیلے کا رہے سینہ سپر

عالمِ رویا میں امشب
امتِ مرحوم کا چہرہ نظر آیا مجھے
جس پہ رودادِ شبِ ماتم کے آنسو درج تھے
جس پہ محرومی کی ساری داستانیں تھیں رقم
کون سازش میں ملوث ہے لٹیروں کے سوا
کس نے احکامِ شریعت سے کیا ہے انحراف
کچے دھاگوں میں لپیٹی ہے بساطِ زندگی
ہم عدوئے جاں کی خوشنودی میں پھر مصروف ہیں
ہم نے خود اپنی اکائی کو بکھیرا ہر طرف
ہم صفِ ماتم بچھانے کے ہیں کب سے منتظر
ہم نے پھر جرمِ ضعیفی کو بنایا ہے عَلم
ہم محاذ آرائیوں سے کب ٹلے ہیں، یانبی ﷺ
ہم عدالت کا شجاعت کا بھلا بیٹھے سبق
پھر زمانے کی امامت کس طرح ملتی ہمیں
دائرہ پھر تنگ ہوتا جارہا ہے جنگ کا
الکرم....یاسیّدی یا مرشدی، خیرالبشر ﷺ
پیرہن میرے قلم کو خاکِ طیبہ کا ملے