فصلِ یقیں اُگے جلی کشتِ خیال میں- خلد سخن (2009)

فصلِ یقیں اُگے جلی کشتِ خیال میں
اُمت کھڑی ہے قریہء شامِ زوال میں

انوارِ سرمدی کا سمندر ہے موجزن
سورج چمک رہے ہیں رُخِ بے مثال میں

ہر عِلم اُنؐ کے ہے درِ عالی پہ سر نگوں
ہر روشنی ہے آمنہؓ بی بی کے لالؐ میں

نقشِ قدومِ سیدِ لولاکؐ کا ہے عکس
تصویرِ کائنات کے حسن و جمال میں

جیسے شعورِ نو سے کوئی واسطہ نہیں
حیران چشمِ تر ہے رہ پائمال میں

کب سے گرفتِ حَبْسِ مسلسل میں ہوں، حضورؐ
آلودگی کا زہر ہے بادِ شمال میں

ہر شخص کو خدائی کا دعویٰ ہے اِن دنوں
ایسی کوئی مثال ہے ماضی نہ حال میں

اِس کربلا میں چادرِ زینبؓ ملے، حضورؐ
لپٹی ہوئی زمین ہے زخموں کی شال میں

یہ مانگتا ہے امن کی خیرات آپؐ سے
صدیوں کا اضطراب ہے روئے ہلال میں

اعزاز یہ مرا کسی صورت بھی کم نہیں
رہتا ہوں میں بھی خوشبوئے ہجر و وصال میں

شیریں لبوں کی بھیک کا طالب ہوں یارسولؐ
تلخی بہت ہے بچوں کے ہر اِک سوال میں

اذنِ سفر ہوائے مدینہ کو یانبیؐ
اُلجھا ہوا، ریاضؔ، ہے سانسوں کے جال میں