حضور ﷺ ! آج بھی آنسو رقم ہیں ہاتھوں پر- روشنی یا نبی ﷺ (2018)

حضور ﷺ ، آج بھی زر کی تپش سے پگھلا ہوں
حضور ﷺ ’ آج بھی غربت نے ڈس لیا ہے مجھے
چھپا رہا ہوں چراغوں کو اپنے دامن میں
ہوا نے خوفزدہ آج بھی کیا ہے مجھے
حضور ﷺ آج بھی کرب و بلا کے لمحوں میں
بدن کی خاک پہ برسے ہیں طنز کے نشتر
بدن کی خاک بنی ہے ہدف ہواؤں کا
حضور ﷺ آج بھی دستِ قضا میں ہے خنجر
اَنا پرست ہے ہر شخص میری بستی کا
ہوائے عجز کا جھونکا یہاں نہیں چلتا
تمام طاق دعا کے دھواں دھواں ہیں حضور ﷺ
دیا تو اب کسی کٹیا میں بھی نہیں جلتا
حضور ﷺ ، لوحِ طلب پر لکھوں تو کیا لکھوں
سوال کرنے کی جرأت مجھے نہیں ہوتی
مرے حقوق مرے سامنے لٹیں لیکن
عجیب بات ہے حیرت مجھے نہیں ہوتی
حضور ﷺ ، آج بھی پھولوں کا ہوں تمنائی
حضور ﷺ ، آج بھی کانٹے بدن میں چبھتے ہیں
حضور ﷺ ، آج بھی گھر میں بڑی اداسی ہے
حضور ﷺ ، آج بھی بچوں کے خواب بکھرے ہیں
حضور ﷺ ، آج بھی آنسو رقم ہیں ہاتھوں پر
حضور ﷺ ، آج بھی چہرہ بجھا بجھا سا ہے
حضور ﷺ ، آج بھی جگنو نہ تتلیاں نہ دھنک
حضور ﷺ ، آج بھی دامن تہی ہوا کا ہے
حضور ﷺ ، اہلِ ہوس کو نگارخانے میں
متاعِ اشکِ ندامت نہ لوٹنے دوں گا
ہوائے جبر چلے لاکھ میرے آنگن میں
کبھی بھی ضبط کے بندھن نہ ٹوٹنے دوں گا
حضور ﷺ ، آپ ﷺ سے مانگے ہیں عافیت کے گلاب
مرے خیال کے طائر سحر تلک چہکیں
مرے دریچوں میں بادِ صبا رکھے کلیاں
خوشی کے پھول مری شاخ شاخ پر مہکیں