مضافاتِ مدینہ کے میں سب آثار کو چوموں- زر معتبر (1995)

مضافاتِ مدینہ کے مَیں سب آثار کو چوموں
نگاہوں سے کروں سجدے در و دیوار کو چوموں

خدا وہ دن بھی لائے جب مَیں نامہ بر کے ہاتھوں کو
کبھی دیکھوں، کبھی اُس کے لب و رخسار کو چوموں

چلی ہے بن کے جوگن تو مِرے آقاؐ کی گلیوں میں
صبا، تیری بلائیں لوں، تِری رفتار کو چوموں

لپٹ جاتے ہیں جو ہر زائرِ طیبہ کے قدموں سے
میں اُن ذروں میں اُن رستوں میں اُن اشجار کو چُوموں

غلامی کی سند آلِ نبیؐ سے مجھ کو مِل جائے
میں ساری رات سارا دن اِسی دستار کو چوموں

حروفِ یارسول اﷲ ہیں شامل ہر قصیدے میں
لگا کر اپنے سینے سے میں اِن اشعار کو چوموں

زباں پر ہر گھڑی صلِّ علیٰ کا وِرد رہتا ہَے
میں اپنے اِس قلم کے سرمدی کردار کو چُوموں

سجی رہتی ہیں جس میں گنبدِ خضرا کی تصویریں
نہ کیوں میں جھوم کر اُس دیدۂ بیدار کو چُوموں

ہوا مٹھی میں بھر لائی ہے کنکر اُنؐ کی چوکھٹ سے
زرِ خاصِ دیارِ احمدِ مختار کو چُوموں

کہاں فرصت میسر ہے مجھے پلکیں جھپکنے کی
حریمِ چشمِ تر میں جھومتے انوار کو چُوموں

میں اپنی بے گناہی میں کہوں اب کیا سرِ محشر
ندامت سے جھکوں اور دامنِ سرکارؐ کو چُوموں

ریاضؔ اِتنی تمنّا ہے کہ مرقد میں دمِ پرسش
اٹھوں، اٹھ کر قدومِ سیّدِ ابرار کو چُوموں