ثنائے مصطفیٰؐ کے واسطے ارض و سما لکھ دے- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)

مرے مولا! مری قسمت میں طیبہ کی ہوا لکھ دے
مرے تشنہ لبوں پر اپنی رحمت کی گھٹا لکھ دے

مجھے جھلسا دیا ہے بادِ صرصر کے تھپیڑوں نے
مدینے میں مواجھے کی خنک آب و ہوا لکھ دے

اندھیرا ہی اندھیرا چھا رہا ہے بزمِ ہستی میں
در و دیوار پر اُنؐ کا دبستانِ ثنا لکھ دے

ہتھیلی پر ابھر آیا ہے عکسِ گنبدِ اخضر
ہتھیلی پر تسلسل سے یہی حرفِ دعا لکھ دے

کروڑوں پھول مہکیں اور کروڑوں رحمتیں برسیں
تُو ہر منظر کے پس منظر میں حرفِ لب کشا لکھ دے

مجھے محبوبؐ کا دربان ہونے کا شرف دے کر
وراثت میں فقط اُنؐ کی غلامی کی ردا لکھ دے

جدھر دیکھوں مدینہ ہی مدینہ ہی مدینہ ہو
مقدّر میں مرے اُنؐ کی غلامی کا صلہ لکھ دے

بدن کے زخم کیوں اب مندمل ہوتے نہیں یارب!
کٹوروں کے کناروں پر خنک آبِ شفا لکھ دے

بہت ہی مختصر اوراق ہیں میری کتابوں کے
ثنائے مصطفیٰؐ کے واسطے ارض و سما لکھ دے

بیاضِ نو صبا کے ہاتھ پر رکھنے سے بھی پہلے
تُو اس کے ہر ورق پر بس برائے مصطفیٰؐ لکھ دے

جزیرے میں پرندوں کا نہیں نام و نشاں باقی
ریاضؔ اب پیڑ پر ہر آشیاں کی التجا لکھ دے