احرامِ ثنا باندھے اُس دیس میں جانا ہے- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)

اک جام غلامی کا پینا ہے پلانا ہے
اتنی سی کہانی ہے اتنا سا فسانہ ہے

ہر صبح بھی آنا ہے، ہر شام بھی آنا ہے
طیبہ میں فرشتوں نے میلاد منانا ہے

جس دیس میں مکہ ہے اور خلدِ مدینہ ہے
احرامِ ثنا باندھے اُس دیس میں جانا ہے

خوشبوؤں کا پیراہن ہو جس کے مقدّر میں
تخلیق کی مٹی میں وہ پھول کھلانا ہے

سرکارؐ کی رحمت کے ساون کی بہاریں ہیں
سرکارؐ کی رحمت کا ہر ایک زمانہ ہے

مقصود قیامت کا اتنا ہے تو بس اتنا
محبوبؐ کی عظمت کا ہر روپ دکھانا ہے

ہم آلِ پیمبرؐ کے دربان ہیں صدیوں سے
آقاؐ کا گھرانہ بھی کیا خوب گھرانہ ہے

اب اذنِ حضوری کا دروازہ کھلے آقاؐ
ہر اشک تشکّر کا قدموں میں بہانا ہے

جو اسمِ محمدؐ کے صدقے میں ملا مجھ کو
اس خطۂ رحمت کو دشمن سے بچانا ہے

اسلوبِ ثنا گوئی خود وَجد میں آئے گا
ہم نے سرِ محشر بھی میلہ سا لگانا ہے

یہ دولتِ دنیا ہے یہ ثروتِ عقبیٰ ہے
زنجیرِ غلامی کو سینے میں چھپانا ہے

اے نیند! مجھے لے چل سرکارؐ کے قدموں میں
سلطانِ مدینہ کو ہر زخم دکھانا ہے

اے ابرِ کرم تھم جا، اے بادِ خنک رک جا
بازاروں کو گلیوں کو بچوں نے سجانا ہے

آنکھیں بھی منوّر ہیں، سانسیں بھی معطّر ہیں
دامن میں ریاضؔ اپنے انمول خزانہ ہے