بادِ شفا کبھی میرے آنگن سے بھی گذر- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)

مسدود راستے ہیں تمامی زمین پر
جائے کہاں حضورؐ کی امت کا نوحہ گر

دن کو بھی تیرگی کی گرفتِ غضب میں ہوں
یارب! مجھے چراغ جلانے کا دے ہنر

تصویر احترام کی بن کر مرا قلم
روتا رہا ہے خوفِ الٰہی میں رات بھر

ہر ہر ورق پہ فکر و نظر کے جلیں چراغ
یارب! اداس شام کے آنگن میں ہو سحر

جگنو اڑیں درودِ پیمبرؐ کے ہر طرف
گذرے درِ نبیؐ پہ شبِ عمرِ مختصر

پلکوں پہ چل کے آ مری قسمت کی چاند رات
تجھ کو بلا رہی ہے مدینے کی رہگذر

آبِ خنک کے سبز کٹورے نصیب ہوں
حرفِ دعا کے پھول کھلیں شاخ شاخ پر

ہاتھوں میں التماس کے گجرے لیے ہوئے
اے شامِ التماس مری روح میں اتر

زخموں سے چُور چُور ہے ہر پھول کا بدن
بادِ شفا کبھی مرے آنگن سے بھی گذر

چھاؤں کبھی جو بانٹتا رہتا تھا دھوپ میں
چپ چپ کھڑا ہے دشت میں بوڑھا سا وہ شجر

آنکھیں ریاضؔ حشر کے میدان میں ملیں
جوگن بنی رہے درِ سرکارؐ پر نظر