درودوں سے منور ہے فضائے آشیاں میری- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)

ثنائے مرسلِ اعظمؐ فقط ہے ترجماں میری
حیاتِ مختصر یارب! ہے صبحِ گلفشاں میری

مری چھاگل میں رم جھم موسموں کا ابر اترے گا
سرِ محفل سنیں گے ساقیٔ کوثر فغاں میری

مری ویران آنکھوں کے ستارے بجھتے جاتے ہیں
نگاہِ مصطفیٰؐ کی منتظر ہے کہکشاں میری

چراغِ آرزو جس نے چھپا رکھے ہیں سینے میں
ثنا کے پھول لائی ہے وہ طیبہ سے زباں میری

مرے آنگن میں کب سے بھوک نے ڈیرے جمائے ہیں
طلب گارِ کرم ہے، یانبیؐ، عمرِ رواں میری

اُدھر رحمت برستی ہے غلاموں کے نشیمن پر
اِدھر الجھی ہوئی ہے شامِ غم میں داستاں میری

بیاضِ نعت کے اوراق کی محرابِ مدحت میں
سنائی دے رہی ہے ایک مدت سے اذاں میری

مجھے کامل یقیں ہے بعد مرنے کے لحد میں بھی
ابد تک روشنی دے گی شبِ نطق و بیاں میری

مسلسل جل رہی ہیں عشق کے دامن میں قندیلیں
لکھا ہے جو، نہیں ہرگز، صدائے رائیگاں میری

مری سانسوں میں اتری ہیں ہزاروں تتلیاں، آقاؐ
بھری رہتی ہے پھولوں سے ردائے مہرباں میری

مرے ذوقِ غلامی میں اضافہ ہی اضافہ ہو
مدینے کی طرف ہے آبجو کب سے رواں میری

مَیں خوشبو کے تعاقب میں مدینے آن پہنچا ہوں
اگرچہ کل تلک تھی زندگی سنگِ گراں میری

چراغِ نعت تنکوں نے اٹھا رکھے ہیں برسوں سے
درودوں سے منّور ہے فضائے آشیاں میری

حقائق ہی حقائق ہر ورق پر لب کُشا ہوں گے
کتابِ آرزو کھولو پسِ وہم و گماں میری

مجھے حاصل رہی ہے ہمنشینی چاند تاروں کی
کہاں ہے زندگانی اک کتابِ رائیگاں میری

لحد میں بھی ریاضِ نعت گو مصروف رہتا ہے
ازل سے التجائے چشمِ تر ہے ضَوفشاں میری

ریاضؔ اس کو مسلسل چومتے رہنا مدینے میں
سلامی دینے آئی ہے یہ کلکِ زرفشاں میری