دو نعتیہ: میں ہمیشہ سے مدینے کے طرف داروں میں ہوں- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)

اپنے ہر اک زخم کے میں سرخ انگاروں میں ہوں
شہرِ مدحت کے میں محرابوں میں میناروں میں ہوں

تتلیوں سے رات بھر سرگوشیاں کرتا ہوں میں
سانس کیا لوں؟ پتھروں کی سخت دیواروں میں ہوں

دو قدم چلنا بھی مشکل ہے مرے آقا حضورؐ
ہو عطا آبِ شفائے جاں کہ بیماروں میں ہوں

روز ڈس لیتے ہیں تنہائی کے ویرانے حضورؐ
جیسے میں شام و سحر اپنے عزاداروں میں ہوں

میرے سامانِ سفر میں سوت کی انٹی نہیں
باوجود اِس کے میں یوسف کے خریداروں میں ہوں

عدل کی زنجیر میرے ہاتھ میں آتی نہیں
میں غریبِ بے نوا، دکھ درد کے ماروں میں ہوں

بھول جاتا ہوں اذیّت ناک لمحوں کا سفر
نعت کے شاداب موسم کے چمن زاروں میں ہوں

شام ہوتے ہی الجھ پڑتا ہوں اپنے آپ سے
آپؐ کی چشمِ کرم کے میں طلب گاروں میں ہوں

چادرِ رحمت کسی شب خواب میں مجھ کو ملے
آپؐ کے، یا سیّدیؐ! میں بھی قلم کاروں میں ہوں

حشر تک بھیگا رہوں اشکِ ندامت میں ریاضؔ
میں خطاکاروں، سیہ کاروں، گنہ گاروں میں ہوں

*

مجھ کو بس معلوم ہے اُنؐ کے وفاداروں میں ہوں
ملتِ اسلامیہ کے میں بھی غم خواروں میں ہوں

یا محمد مصطفیٰؐ! خاکِ شفا کی بھیک دیں
وقت کے فرعون ہیں جن کے میں درباروں میں ہوں

ایک دن آنگن میں خوشحالی کے اتریں ماہتاب
غربت و افلاس کے کب سے سیہ غاروں میں ہوں

آپؐ کا در چھوڑنا میرے لیے ممکن نہیں
آپؐ کے الطاف و رحمت کے سزاواروں میں ہوں

نعت کے انوار میں ڈوبا رہا میرا قلم
کب پرانے اور بوسیدہ سے اخباروں میں ہوں

میں طلوعِ فجر کے ہر منظرِ دلکش میں تھا
سجدہ ریزی کے گذرتے نور کے دھاروں میں ہوں

ہر کسی کے ہاتھ پر رکھتا ہوں مدحت کے چراغ
نعتِ سرکارِ دو عالمؐ کے علم داروں میں ہوں

میرے آباء منتظر تھے شہرِ یثرب میں حضورؐ
میں ہمیشہ سے مدینے کے طرف داروں میں ہوں

نعت کی خوشبو خلاؤں میں بھی پھیلی ہے ریاضؔ
مدحتِ خیرالبشرؐ کے کتنے گلزاروں میں ہوں

جو کھڑے ہوتے ہیں صف میں اپنے پنجوں پر ریاضؔ
لشکرِ سرکارؐ کے ایسے رضا کاروں میں ہوں