دعائے سحر: درودِ مصطفیٰؐ کو توُ نصابِ انس و جاں کر دے- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)

شعور و عقلِ انسانی کو بحرِ بیکراں کر دے
مری سوچوں کی مٹی کو چراغِ آسماں کر دے

بناؤں امن کے پھولوں کا گلدستہ سرِ مقتل
مرے افکارِ نو کو توُ بہارِ جاوداں کر دے

اگر جلنا ہی پیڑوں کا مقدّر ہے تو پھر یارب!
کسی سوکھے ہوئے تنکے کو میرا آشیاں کر دے

مرے ہمراہ طیبہ کی فضا میں سانس لیں مولا!
زمین پر بسنے والوں کو تو میرا ہمزباں کر دے

پکار اٹھی ہے اب تشنہ لبی اِس خاکِ تشنہ کی
برہنہ شاخ پر حرفِ دعا کو گلفشاں کر دے

منڈیروں پر چراغاں کر کے سوئے ہیں ابھی بچے
ہوائے تُند کو گلیوں میں بادِ مہربان کر دے

حسینیت کے ہاتھوں پر چراغِ لب کشا رکھ کر
یزیدیت کو توُ شامِ غریباں کا دھواں کر دے

سوا نیزے پہ سورج ہے مرے زندہ مسائل کا
خدایا! ابرِ رحمت کو سروں کا سائباں کر دے

مرے شہرِ سخن میں عشق کی پُروا رہے چلتی
مرے ہر لفظ کو خلدِ نبیؐ میں زرفشاں کردے

اندھیرے باندھ کر رختِ سفر رخصت کسی دن ہوں
وطن کے ذرے ذرے کو تو مثلِ کہکشاں کر دے

کہانی مجھ سے اشکوں کی سمیٹی جا نہیں سکتی
توُ اپنے فضل و رحمت کو شریکِ داستاں کر دے

غلافِ کعبۂ اقدس میں شامل ہیں مرے آنسو
حوادث کی چٹانوں کو توُ شبنم ناگہاں کردے

ردائیں درگذر کی ڈھانپ لیں میرے جرائم کو
کرم کے پیرہن میں یا خدا! دونوں جہاں کر دے

چمن میں تشنہ ہونٹوں پر درودوں کی گرے برکھا
درودِ مصطفیٰؐ کو تو نصابِ انس و جاں کردے

توُ ہر گرداب میں ساحل کی رکھ دے روشنی، یا رب!
اٹھے آندھی تو اُس کو کشتیوں کا بادباں کر دے

ریاضِؔ بے نوا کی آرزو ہے قادرِ مطلق!
فساد و فتنہ و شر سے بشر کو بدگماں کر دے