ضمیر بولیں پیمبرؐ کے فیصلوں کی طرح- غزل کاسہ بکف (2013)

برستی رہتی ہیں ساون کے بادلوں کی طرح
حضورؐ، میری بھی آنکھیں مرے بڑوں کی طرح

لکھا تھا اسمِ محمدؐ نہ جب تلک میَں نے
مری حیات تھی ردی کے کاغذوں کی طرح

سجا کے لب پہ درود و سلام کی رم جھم
چراغ، رقص کریں میرے آنسوئوں کی طرح
میں صبح و شام تلاوت نہ کیوں کروں اس کی
مرے حضورؐ کا چہرہ ہے آیتوں کی طرح

فضائے نعت میں اڑتے ہوئے نہیں تھکتا
مرا قلم بھی ہے جبریلؑ کے پروں کی طرح

ہزار تختیاں لکھی ہیں، یا نبیؐ، جن پر
حروفِ نعتِ مسلسل ہیں مشعلوں کی طرح

ہمارا دعویٰٔ عشقِ نبیؐ بجا، لیکن
ہمارے طور طریقے ہیں مشرکوں کی طرح

کھڑا کرو مجھے تاریخ کی عدالت میں
بدل کے بھیس مَیں آیا ہوں رہبروں کی طرح

ہمیں یہ جرمِ ضعیفی کی دے رہے ہیں سزا
سفید فام ہیں جنگل کے بھیڑیوں کی طرح

غبارِ عَدْل و مساوات کے اندھیروں میں
ضمیر بولیں پیمبرؐ کے فیصلوں کی طرح
قلم دوات سنبھالو لکھو! مسلسل ہوں
وطن میں بارشیں، طیبہ میں بارشوں کی طرح

مرا بھی نطق ہے گنجان شہر کا مرکز
مرا بیان ہے مدحت کی وادیوں کی طرح

مری خطائوں کا کوئی سرا نہیں ملتا
حضورؐ، آپؐ کی رحمت کے سلسلوں کی طرح

حضورؐ، اشکِ ندامت کے گرم پانی سے
مَیں روز دُھلتا ہوں مکتب کی تختیوں کی طرح

سفر طویل ہے، بارش بھی سر پہ ہے میرے
حضورؐ، عمر ہے کاغذ کی کشتیوں کی طرح

حضورؐ، آئنہ خانوں سے دور جنگل میں
تمام عکس ہیں مفرور ملزموں کی طرح

حضورؐ، کھول کے رکھ دوں میں عشق کا مفہوم
مرا سخن ہو کتابوں کے حاشیوں کی طرح
ہر ایک لفظ میں مدحت کے پھول ہیں، اِن کو
لغت سنبھال کے رکھے امانتوں کی طرح

حضورؐ، میرا مُدّثِّر بھی گھر سے نکلا ہے
تلاشِ رزق میں بارش کے پانیوں کی طرح

ہمارے بچّوں کے کل پر بھی چاندنی برسے
حضورؐ، آپؐ کی بے پایاں شفقتوں کی طرح

مری دعا مرے بچّو! ہے آپؐ کے صدقے
تمہاری عمر چراغوں کی ہو لووں کی طرح

خدا کرے ہوں تمہارے نصیب بھی اچھے
مرے قلم کی مقفل تجوریوں کی طرح

یہ سیلِ عشق بھلا روکنے سے کیا رکتا
کہ فکرِ نو ہے خلائوں کی وسعتوں کی طرح

ترے حبیبؐ کا ذکرِ جمیل کرتا ہوں
ہر ایک پھول ہو، یا رب، مرے لبوں کی طرح
مَیں روز لکھتا ہوں نعتِ حضورؐ کے کالم
بنامِ شاہِ مدینہ مراسلوں کی طرح

زمیں پہ خوف کی چادر بچھانے والوں کا
جہانِ نو بھی ہے فکری مغالطوں کی طرح

قدم قدم پہ مناظر ہیں خودکشی کے بہت
حضورؐ، امتی نیزوں پہ ہیں سروں کی طرح

حضورؐ، امتِ مظلوم کربلا میں ہے
یزید وقت کے پھرتے ہیں قاتلوں کی طرح

ہوا بھی کی تھی مقفل سپاہِ کوفہ نے؟
فراتِ وقت پہ قابض یزیدیوں کی طرح

تمام لوگ مفادات کے بنے قیدی
اذان دیتا رہوں گا مؤذنوں کی طرح

فقیہہِ شہر مرے ہاتھ کاٹ دے گا، حضورؐ
لکھوں گا سچ ہی مہذب صحافیوں کی طرح
ہمارے ذہنوں کی تہذیب پھر ضروری ہے
کسی کی بیٹیاں اپنی ہوں بیٹیوں کی طرح

جو میرے مدِ مقابل ہیں یا نبیؐ، اُن کی
ہر اک دلیل ہے بہتاں تراشیوں کی طرح

حضورؐ، مجھ کو رہائی نصیب ہو جائے
کھڑا ہوں کب سے کٹہرے میں ضامنوں کی طرح

حضورؐ، تیز ہوائیں اڑائے پھرتی ہیں
بدن کی خاک کو چڑیوں کے گھونسلوں کی طرح

غبار اڑتا ہے تشکیک کا سرِ مقتل
دیارِ غیر کے بے نور مدرسوں کی طرح

حضورؐ، زندہ مسائل نے گھیر رکھا ہے
بہت اداس ہوں ویران مقبروں کی طرح

حضورؐ، شامِ حوادث میں اشک لگتے ہیں
زمیں پہ پھیلے ہوئے ان گنت دکھوں کی طرح
ہزار سال سے شاہین جن کو سمجھا تھا
فضا میں اڑنے لگے ہیں وہ کرگسوں کی طرح

سپاہِ عشق کی تقلید ان سے کیا ہو گی
ہوس پرست ہیں پورس کے ہاتھیوں کی طرح

اکھڑ چکی ہیں طنابیں ہمارے خیموں کی
ہوائیں چلتی ہیں، سرکارؐ، آندھیوں کی طرح

حروفِ سادہ میں عرضِ ہنر بیاں کی ہے
مرا سخن نہیں واعظ کی منطقوں کی طرح

خدا کرے کہ تعارف ہو میرا مَحشْر میں
نگارِ مدحتِ آقاؐ کے بانیوں کی طرح

عطا ہو آج بھی انساں کو ضبط کی چادر
حضورؐ، عہدِ منور کے ضابطوں کی طرح

سپرد جن کے، نبی جیؐ، امانتیں کی تھیں
وہی حقوق پہ قابض ہیں غاصبوں کی طرح
حضورؐ، وقت نے روندا ہے اس طرح مجھ کو
میں زخم زخم ہوں پائوں کے آبلوں کی طرح

حضورؐ، حکم ہوا ہے خدا کی بستی میں
گھروں کو پھونک دو ماچس کی تیلیوں کی طرح

جنہیں حصارِ محبت میں ہر گھڑی رکھا
برس رہے ہیں وہ موسم کی سختیوں کی طرح

مَیں آفتاب ہوں لیکن مرا ہے عجز، حضورؐ
مَیں جھاڑیوں ہی میں چمکوں گا جگنووں کی طرح

بڑھا نہ ربط و مراسم امیر زادوں سے
ریاضؔ شہرِ خوشامد کے مفتیوں کی طرح

*

ہر ایک ساعتِ دلکش ہے رتجگوں کی طرح
قلم گلاب سمیٹے ہری رتوں کی طرح

صبا کے لب پہ سجاتا ہوں مدحتوں کے گلاب
درود پڑھتی ہوئی سبز تتلیوں کی طرح

مَیں رَقْص کرتے ہوئے چوم لوں گا اس کے قدم
صبا ملے کبھی، آقاؐ کے قاصدوں کی طرح

ہے لفظ لفظ صداقت کا آئنہ بردار
ضمیرِ زندہ کی زندہ عدالتوں کی طرح

چراغ جن پہ جلائے ہیں خود بہاروں نے
مری حیات ہے ایسی ہتھیلیوں کی طرح

حضورؐ، حشر کے دن آپؐ کے ثنا گو بھی
ہوں ساتھ آپؐ کے رحمت کے جمگھٹوں کی طرح

ہو میری عمر حضوری کے راستوں میں تمام
ہو میری موت بھی میری سعادتوں کی طرح

نہیں ہے اوجِ ثریا کو دعویٰٔ رفعت
غبارِ شہرِ نبیؐ کی بلندیوں کی طرح
کتابِ دیدہ و دل کے تمام لفظوں میں
نقوش بنتے ہیں مجھ سے مصوِّروں کی طرح

اُدھر وہ آبِ خنک نور کے کٹوروں میں
اِدھر یہ زندہ مسائل ہیں آفتوں کی طرح

سجی ہوئی ہے سرِ عرش نعت کی محفل
زمیں پہ اہلِ محبت کی محفلوں کی طرح

حضورؐ، طالبِ چشمِ کرم ہوں مدت سے
مَیں پی رہا ہوں زمانے کو تلخیوں کی طرح

حضورؐ، امتِ سرکش کے ماتمی چہرے
پڑے ہیں بند مکانوں میں تعزیوں کی طرح

کتابِ شامِ تشدد، حضورؐ، کیا کھولوں
ورق ہیں جنتِ ارضی کی وادیوں کی طرح

ازل سے جیسے معلق ہے آئنوں میں کوئی
حضورؐ، خستہ فریموں میں حیرتوں کی طرح
ہوائے دشت مجھے لے چلی ہے مقتل میں
بچھڑ گیا ہوں مَیں موجوں سے ساحلوں کی طرح

حضورؐ، آج بھی بچّوں نے مجھ سے پوچھا ہے
رہیں گے شہر میں کب تک مسافروں کی طرح

ہجومِ حرفِ صداقت رہے تعاقب میں
ابھی ہیں لوگ جہالت کے مدفنوں کی طرح

حضورؐ، جبر کی دیوار گرنے والی ہے
وطن کے لوگ بھی ہیں سرخ آندھیوں کی طرح

حضورؐ، میرے قبیلے کے نوجواں اک دن
گریں گے خرمنِ باطل پہ بجلیوں کی طرح

قدیم زندہ روایات کے حسیں پیکر
جہانِ شر میں ہیں بے جان سے بتوں کی طرح

نہیں ہے جھوٹ کی عادت مجھے، مرے بچو!
نہیں ہے عظمتِ رفتہ حکایتوں کی طرح
یہ آرزو ہے مری ماں کے لاڈلے بیٹے
مجھے بھی، کاش سمجھتے پڑوسیوں کی طرح

عذاب نامے تھے ہاتھوں میں یا رسول اللہ
نیا برس نہ ہو بیتی ہوئی رُتوں کی طرح

حضورؐ، عرصۂ محشر میں روز و شب مَیں نے
دہائی آپؐ کی دی ہے منادیوں کی طرح

ہمیں، حضورؐ، فقط سر جھکانا آتا ہے
جواں قبیلے کے اٹھیں مجاہدوں کی طرح

نصیب فتح ہو ہر موڑ پر اسے، آقاؐ
سفر نصیب ہو امت کو ہجرتوں کی طرح

سو عمر قید کی مجھ کو سزا سنا دیجے
کھڑا ہوں کب سے عدالت میں مجرموں کی طرح

یہ شہرِ نور کے بچّوں کے ہاتھ چومتی ہے
ہماری آنکھ ہے بستی کے روزنوں کی طرح
یہ بخت، اُنؐ کی غلامی کی گر سند پائیں
کوئی نہیں ہے خدا کے پیمبروں کی طرح

حضورؐ، شہرِ سیاست کے وارثانِ عزیز
صنم پرست ہیں اندھے پجاریوں کی طرح

خلوص و مہر و محبت سے آشنا ہی نہیں
حضورؐ، لوگ ہیں ماتھے کی سلوٹوں کی طرح

اسے حضورؐ ملے دلکشی بہاروں کی
شبِ زوال ہے جلتی ہوئی رتوں کی طرح

ہر ایک سانس ہو میری بھی، یا رسول اللہ
ردائے ابرِ کرم کے محاصروں کی طرح

بدن کو روح سے ہوتے جدا بھی دیکھا ہے
درِ نبیؐ سے ہے رخصت قیامتوں کی طرح

خیال آپؐ کا مرہم بنے گا زخموں پر
اُنہیںؐ پکاریئے ٹوٹے ہوئے دلوں کی طرح
کتاب جس میں کتابِ مبیں نہ شامل تھی
زمیں میں دفن ہوئی مردہ فلسفوں کی طرح

نظر بھی آتے ہیں چلتے ہوئے مگر آقاؐ
ہمارے لوگ ہیں بے جان پتلیوں کی طرح

چراغ رکھتے ہیں عزم و عمل کے سینے میں
وطن کے لوگ ہیں کب خالی طاقچوں کی طرح

حصارِ وقت اگر ٹوٹ بھی گیا، آقاؐ
پڑا رہوں گا میں قدموں میں والیوں کی طرح

نصابِ شر جسے لکھا تھا شر پرستوں نے
ورق ورق ہے وہ مبہم عبارتوں کی طرح

درِ نبیؐ سے نہیں ہوتے ہم کبھی رخصت
جہاں بھی ہوں ہیں مدینے کے باسیوں کی طرح

مرے حضورؐ کے قدمین کے تصدق سے
جہان مہکے گا مدحت کے گلشنوں کی طرح
نیا شعور، نیا اعتماد مجھ کو ملا
ملے ہیں اہلِ مدینہ جو محسنوں کی طرح

سیاہ سینہ بجھے دن کا جگمگا اٹھے
حضورؐ، آپؐ کی روشن بشارتوں کی طرح

نہیں، ریاضؔ، یہ ممکن نہیں، حقیقت ہے
کسی بھی شخص کا ہونا صحابیوں کی طرح

صلہ ضرور کرے گا عطا خدائے عظیم
ادب، ریاضؔ، مواجھے کی خلوتوں کی طرح

مشامِ جاں ہے معطر مرے قلم کا، ریاضؔ
صبا کے ہاتھ میں پھولوں کی ڈالیوں کی طرح

حضورؐ، سارے خزانوں کے آپؐ ہیں مالک
عطا، ریاضؔ، کو سکّے ہوں حوصلوں کی طرح

نبیؐ کی نعت کا مقطع میں لکھ رہا ہوں، ریاضؔ
قلم ورق پہ جھکے دل کی دھڑکنوں کی طرح

*

فضائے شہرِ پیمبرؐ ہے رم جھموں کی طرح
عرب کی ریت کے ذرے ہیں سورجوں کی طرح

ردائے خاکِ مدینہ جو میرے سر پہ ہے
مرا وجود ہے شاداب ساعتوں کی طرح

مجھے ملا ہے حضوری کے رتجگوں کا گداز
کبھی رکھا نہیں آقاؐ نے فاصلوں کی طرح

درِ خدا، درِ سرکارؐ کے علاوہ ہم
کہیں کھڑے نہیں ہوتے بھکاریوں کی طرح

جمالِ صبحِ مدینہ تجھے دکھا لاؤں
ہر ایک لفظ ہے میرا بھی آئنوں کی طرح

مرے خیال کے طائر! فضائے طیبہ میں
طوافِ گنبدِ خضرا ہو بادلوں کی طرح

مری طلب بھی مؤدب کھڑی ہے طیبہ میں
قدم قدم پہ ہواؤں کی ٹولیوں کی طرح

کھڑا ہوں کب سے درود و سلام پڑھتے ہوئے
درِ حضورؐ کی جانب مَیں خوشبوؤں کی طرح

حضورؐ، آنکھ کی بینائی کم نہ ہو میری
درِ عطا پہ کھڑا ہوں گداگروں کی طرح

فصیلِ شہر پہ آقاؐ مجھے سہارا دیں
امڈ پڑے ہیں حوادث بھی لشکروں کی طرح

نہیں مقام کوئی اور جو مثال بنے
مرے حضورؐ کے قدموں کی رفعتوں کی طرح

عرب کے چاند سے نسبت کوئی نہیں رکھتے
بہت سے لوگ ہیں خالی عمارتوں کی طرح

مرے حضورؐ نے سب کچھ عطا کیا ہے مجھے
مَیں کیوں سوال کروں تجھ سے مفلسوں کی طرح
قدم جنابِ پیمبرؐ کے چومتا اکثر
میَں، کاش ہوتا، احد تیرے پتھروں کی طرح

طواف پھول کا کرتے ہوئے درود پڑھوں
میَں میٹھے شہد کی خوش بخت مکھیوں کی طرح

سوائے آپؐ کے آقاؐ، تمام لوگوں کے
تمام لفظ ہیں جھوٹی تسلیوں کی طرح

مجھے یقین ہے سرکارؐ کے وسیلے سے
بروزِ حشر مَیں اُٹھوں گا مدنیوں کی طرح

پیا کے گیت ہی شام و سحر سناتی ہے
ہماری کلکِ ثنا ہے سہاگنوں کی طرح

مجھے حقوق تھے حاصل وہاں سکونت کے
رہا ہوں شہرِ نبیؐ میں مقامیوں کی طرح

تلاش اُنؐ کی تھی، ہجرت کے راستے میں مجھے
لبوں پہ نعت تھی یثرب کی بچّیوں کی طرح
حضورؐ، جشنِ ولادت پہ لینے آیا ہوں
کرم کی بھیک مدینے میں سائلوں کی طرح

حضورؐ، آپؐ ہی چارہ گری کریں اب تو
یہ رہنما مجھے لگتے ہیں رہزنوں کی طرح

حضورؐ، مسندِ ارشاد پر وہ قابض ہیں
ہیں جن کے سائے بھی کوتاہ قامتوں کی طرح

کھُلی کتاب ہوں لیکن، حضورؐ، کیا کیجیے
ہوا ہوں داخلِ دفتر میں فائیلوں کی طرح

مرے خدا، مری معصوم سی یہ خواہش ہے
ثنا کے پھول ہوں روضے کی جالیوں کی طرح

درِ کرم کے بڑے خوشگوار موسم میں
بچھا ہوا ہوں میں سائل کی جھولیوں کی طرح

اُدھر مواجھہِ اقدس میں حاضری کے بعد
ہوا ملی مجھے بچپن کے دوستوں کی طرح
انا کو عجز میں تبدیل کر کے، ہمسفرو!
کھڑے رہو درِ آقاؐ پہ عامیوں کی طرح

اُگا رہا ہے ثنائے رسولؐ کی فصلیں
مرا سخن بھی ہے زرخیز کھیتیوں کی طرح

جو اپنے ذہن میں فتنوں کو پالتے ہیں، حضورؐ
الجھ رہے ہیں وہ خود سے مغالطوں کی طرح

قدم قدم پہ اُگیں احترام کے سورج
صدا بلند نہ ہرگز ہو جاہلوں کی طرح

مَیں اِس میں خاکِ مدینہ لگایا کرتا ہوں
ہے میری آنکھ بھی شبنم کی ٹھنڈکوں کی طرح

مرے بھی کاسہء حیرت میں نور کے سکّے
کھڑا ہوں شہرِ تمنا میں حاجتوں کی طرح

خدا کرے کہ ہو چشمِ طلب ہماری بھی
سلام کرتی مواجھے میں سسکیوں کی طرح
خدا کرے کہ ہوں جنت میں دودھ کی نہریں
کسی کی چشمِ تمنا کے دامنوں کی طرح

خدا کبھی بھی مجھے ضبط کی نہ دے چادر
ادب سے ٹپکا کروں اپنے آنسوؤں کی طرح

خدا کرے کہ نہ رختِ سفر کبھی باندھوں
پڑاؤ ڈالے مدینے میں قافلوں کی طرح

خدا کرے کہ ہو محشر کی شام کا منظر
گلابِ نعتِ پیمبرؐ کی نکہتوں کی طرح

خدا کرے کہ ہو ہر شخص اُنؐ سے وابستہ
سرِ بہار غلاموں کے رابطوں کی طرح

خدا کرے کہ ہوں سیراب چشمِ تر سے کبھی
ہمارے جسم بھی بے آب کھیتیوں کی طرح

خدا کرے کہ برسنے کا بھی ہنر آئے
چلو درود پڑھیں ہم بھی بدلیوں کی طرح
خدا کرے کہ ہو سینہ افق کا بھی روشن
درِ حضورؐ پہ پڑتی تجلیوں کی طرح

خدا کرے کہ لحد میں بھی ناز فرمائے
قلم وقار سے رہتا ہے گل رخوں کی طرح

خدا کرے کہ سرِ حشر بھی غلاموں میں
شرابِ عشق ہو تقسیم میکدوں کی طرح

خدا کرے کہ سراپا مَیں اشک بن جاؤں
مرا وجود بھی ہو موم بتیوں کی طرح

خدا کرے کہ رعایا میں وہؐ شمار کریں
مری بلا سے زمانہ ہے دشمنوں کی طرح

خدا کرے کہ اطاعت گزار بن جاؤں
مَیں شرمسار ہوں اپنی ہی خامیوں کی طرح

کسی بھی غیر کا سکّہ یہاں نہیں چلتا
رہو مدینے کی گلیوں میں عامیوں کی طرح
فصیلِ شہرِ نبیؐ کی پناہ میں ہوں ریاضؔ
ہزار بار اٹھے شور آندھیوں کی طرح

ریاضِ جنّہ میں مَیں نے یہ آرزو کی ہے
ریاضؔ، خلد ہو طیبہ کے منظروں کی طرح

*

پناہِ مرسلِ آخرؐ میں موتیوں کی طرح
پڑا ہوا ہوں مَیں ساحل پہ سیپیوں کی طرح

زباں، حضورؐ ہے روشن سفارتوں کی مثال
ورق، حضورؐ ہے آباد بستیوں کی طرح

مَیں چشمِ تر کا ہوں ممنون، محسنِ اعظمؐ
مری جو نعت ہے بھیگی ہوئی رتوں کی طرح؎

مَیں کب سے گہرے سمندر میں ہوں، ثنا کے بعد
قلم، لگا ہے جزیرے کے ساحلوں کی طرح

مری بھی کشتِ ادب میں چراغ اگتے ہیں
دھنک کے رنگ ملے ہیں سمندروں کی طرح

حضورؐ، تشنہ زمینیں دہائی دیتی ہیں
گھٹا برس پڑے پانی کی چھاگلوں کی طرح

حضورؐ، آپؐ ہیں گرہوں کی کھولنے والے
مَیں اپنے جسم کے اندر ہوں الجھنوں کی طرح

حضورؐ، کتنی ہی صدیوں سے میرے پیکر کو
ہوا بناتی ہے پانی پہ دائروں کی طرح

حضورؐ، چھوٹے سے گھر کی تلاش ہے مجھ کو
اٹھائے پھرتا ہوں خیمے مَیں بے گھروں کی طرح

حضورؐ، امتِ مظلوم پر کرم کی نظر
کھڑی ہے آپؐ کے در پر یہ مجرموں کی طرح

حضورؐ، ایک بھی جگنو نہیں ہے مٹھی میں
طویل رات ہے لمبی مسافتوں کی طرح
حضورؐ آپؐ کے ادنیٰ غلام زادوں کے
تمام نقشِ محبت ہیں نوکروں کی طرح

حضورؐ، امتِ مضطِر کی نیم وا آنکھیں
برس رہی ہیں سرِ شام ساونوں کی طرح

غلام آپؐ کے در در کی ٹھوکریں کھائیں
کئی غریب ممالک کی سرحدوں کی طرح

حضورؐ، دھند سی ہے آئنوں کے چاروں طرف
یہ انکشاف ہو مجھ پر حقیقتوں کی طرح

حضورؐ، میرا مُدّثِّر غلام ابنِ غلام
حضورؐ، بچّیاں میری ہیں باندیوں کی طرح

بھٹک رہا ہے مرا قافلہ سرِ مقتل
ہزار سال سے، آقاؐ، ہوں ٹھوکروں کی طرح

عجیب خوف کی چادر بدن پہ اوڑھی ہے
گرفتِ شام میں رہتا ہوں مشکلوں کی طرح
کسی کی بات پہ مجھ کو یقیں نہیں آتا
مرے رفیق بھی آقاؐ ہیں کوفیوں کی طرح

تمام رات مچاتے ہیں شور بستی میں
حضورؐ، وحشی قبائل یہ جنگلوں کی طرح

بلا مثال، بلا مثل، ہادئ برحقؐ
مرے بھی بھائی ہیں یوسف کے بھائیوں کی طرح

خدا اگر مجھے توفیق دے تو شام و سحر
کروں سجود قلم کے مراقبوں کی طرح

اِسے حضورؐ کے رستے میں رکھ دیا جائے
مرا بدن ہے برہنہ سی ٹہنیوں کی طرح

مَیں شرمسار ہوں بارِ دگر گناہوں پر
کھڑا ہوں سر کو جھکائے ندامتوں کی طرح

شعور آپؐ نے سب کے وجود کا بخشا
مَیں گھر میں رہتا تھا بستی کے آمروں کی طرح
بغیر جن کے وسیلے کے کچھ نہیں ملتا
میَں نام لیتا ہوں اُنؐ کا عبادتوں کی طرح

ہدف ہے امتِ مظلوم سنگ باری کا
زمین سرخ ہے طائف کی وادیوں کی طرح

ہمارے ہاتھ میں بالِ ہما نہیں آتا
سراب دیکھتے رہتے ہیں منزلوں کی طرح

زمیں پہ جھوٹے خداؤں کی حکمرانی ہے
بچھے ہوئے ہیں ابھی لوگ مسندوں کی طرح

سوائے جھوٹ کے تخلیق کچھ نہیں کرتے
جو اپنی ذات کے اندر ہیں تہمتوں کی طرح

لباسِ عجز میں رہنا پسند ہے اس کو
قلم، حضورؐ ہے میرا بھی صوفیوں کی طرح

جنہیں، حضورؐ، ستاروں پہ ڈالنا تھی کمند
بچھے ہوئے ہیں وہ پامال راستوں کی طرح
خدا کی ساری خدائی درود پڑھتی ہے
سلام گونجتے رہتے ہیں گنبدوں کی طرح

تمام میرے مصائب کا خاتمہ ہو، حضورؐ
تمام حرفِ دعا ہوں بشارتوں کی طرح

ہر ایک لفظ سے امت کا خوں چھلکتا ہے
لکھا گیا ہے ہر اخبار سرخیوں کی طرح

جہاں میں بردہ فروشی کی رسم جاری ہے
سپاہِ شاہ ہے جیسے منافقوں کی طرح

نفاذِ عدل کا مطلب بھی جانتے ہیں مگر
ہمارا عہد ہے مردہ تمدنوں کی طرح

خدا کا شکر ہے واجب جھکوں مزید جھکوں
قلم ملا ہے مجھے اُس کی نعمتوں کی طرح

مرے بھی پاس ذخیرہ ہے آنسوؤں کا بہت
کرم کے سرمدی سکّوں کے مخزنوں کی طرح
لکیر کھینچ دی ہے لشکرِ عدو نے، حضورؐ
حصارِ خوف میں کب سے ہوں قیدیوں کی طرح

ہوائے شہرِ مدینہ سے گفتگو کی ہے
ہر ایک سانس ہے خوشبو کی گٹھڑیوں کی طرح

شرابِ عشقِ نبیؐ بٹ رہی ازل سے ہے
افق افق بھی ہے گردش میں ساغروں کی طرح

میں خوشنوا ہوں کہ منگتا ہوں آپؐ کے در کا
وہ بے نوا ہے ریاست کے والیوں کی طرح

تمام کشتیاں کاغذ کی کشتیاں ہیں، حضورؐ
تمام لوگ ہیں پانی کے بلبلوں کی طرح

قلم بھی گھر کی منڈیروں پر آج لہرائے
عطا و بخشش و رحمت کے پرچموں کی طرح

سلام میرا ادب سے وصول کرتی ہے
صبا ہے میرے لڑکپن کے ساتھیوں کی طرح
مجھے کسی بھی شکاری سے ڈر نہیں لگتا
کرم کی جھیل میں رہتا ہوں پنچھیوں کی طرح

جو لفظ آج ورق پر سجا کے لایا ہوں
مہک رہے ہیں سرِ شام وہ گلوں کی طرح

مرے حضور کا لطف و کرم ہے جو مَیں نے
کہی ہے نعتِ مصوَّر سخنوروں کی طرح

ثنائے مرسلِ آخرؐ میں گم ہوں اہلِ قلم
کریں ریاض، ہماری ریاضتوں کی طرح

*

تمام عمر ہو زرتاب ساعتوں کی طرح
درِ حضورؐ پہ گزرے ہوئے دنوں کی طرح

درود پڑھتا ہوں اُنؐ پر کہ حکمِ ربیّ ہے
سلام کرتا ہوں آقاؐ کو قدسیوں کی طرح

کھڑے ہیں لوگ جو در پر، ضرورتیں ان کی
حضورؐ، پوری ہوں میری ضرورتوں کی طرح

حضورؐ، طشت میں آنکھیں سجا کے لایا ہوں
کروڑ ہا درِ اقدس پہ زائروں کی طرح

ہوائے شہرِ پیمبرؐ کے سرد جھونکوں میں
سکوں ملا مجھے ممتا کی لوریوں کی طرح

درِ حضورؐ سے رخصت کے بعد، پوری رات
خدا گواہ، گزاری ہے ہچکیوں کی طرح

درود، نَسْل مری، تا قیامِ حشر پڑھے
بصد ادب پسِ مژگاں، مقلّدوں کی طرح

بڑے ادب سے، بڑے احترام سے، آقاؐ
فضا میں اڑتا ہوں جھک کر کبوتروں کی طرح

حضورؐ، چشمِ کرم کی بڑی ضرورت ہے
بکھر رہا ہوں میَں شیشے کی کرچیوں کی طرح
بہت ستایا ہے مجھ بے نوا کو لوگوں نے
کھڑا ہوں آپؐ کی چوکھٹ پہ غم زدوں کی طرح

حضورؐ، امتِ بے جاں کے سب قبائل بھی
خزاں میں لگتے ہیں پتوں کی ڈھیریوں کی طرح

تمہارے ہاتھ پہ رکھیں گے سورجوں کے بدن
انہیںؐ پکار کے دیکھو کبھی شبوں کی طرح

حضورؐ، موسم دار و رسن بدل جائے
ہزار رنگ ہوں کلیوں کے آنچلوں کی طرح

حضورؐ، کون سے رشتے پہ اعتبار کروں
حساب کرتے ہیں احباب تاجروں کی طرح

نبیؐ کے گنبدِ خضرا کا عکس ہے اس پر
ورق تمام ہے سرسبز موسموں کی طرح

جوارِ گنبدِ خضرا کے سبز موسم میں
تمام لوگ ملے مجھ کو دلبروں کی طرح
ہزار بار قیامت کا شور اٹھتا رہے
کھڑا رہوں میں مواجھے میں خوشبوؤں کی طرح

ہر اک خیال ہو بطحا کی وادیوں جیسا
ہر ایک خواب ہو طیبہ کے منظروں کی طرح

مرے قلم کا اثاثہ نہیں بفضلِ خدا
کسی بخیل کی خالی تجوریوں کی طرح

حضورؐ، آپؐ کی امت کھڑی ہے صدیوں سے
حصارِ صبر میں ناکام حسرتوں کی طرح

جلیں گی جھوٹی انا کے الاؤ میں، آقاؐ
گلاب بستیاں کب تک جہنموں کی طرح

یہ نسلِ آدم و حوّا کا خون پیتے ہیں
شریر لوگ ہیں جنگل کے وحشیوں کی طرح

خرید لیتے ہیں، آقاؐ، قلم کو زر والے
گلی محلے میں گندم کی بوریوں کی طرح
حضورؐ، آج کا اخبار پھینک آیا ہوں
ورق تمام تھے قاتل کے مخبروں کی طرح

حضورؐ ذہنی مریضوں کو بھی ردائے شفا
ہر ایک فعل ہے ان کا حماقتوں کی طرح

چراغ بانٹ رہا ہوں کہ میرے سب دشمن
غبارِ شب میں ہیں شب کے گماشتوں کی طرح

حضورؐ، زندہ ہوں تاریخ کی فصیلوں پر
ہزار سال سے معتوب شہریوں کی طرح

ملے گا حشر میں اجرِ عظیم اِن کو بھی
ہمارے لفظ ہیں زندہ مبلّغوں کی طرح

طلوع ہوتا ہوں، اُنؐ پر درود پڑھتے ہوئے
مرا وجود ہے سورج کی گردشوں کی طرح

درِ خدا سے درِ مصطفٰے کی منزل تک
رفیق سب کو ملیں میرے ہمدموں کی طرح
حضورؐ، عرضِ تمنا کا حوصلہ بھی نہیں
حضورؐ، شعر ہیں میرے گزارشوں کی طرح

قلم کو رفعتِ افلاک بھی خدا نے دی
ہے لفظ لفظ ستاروں کے جھرمٹوں کی طرح

سروں پہ جن کے غلامی کی سبز چادر ہے
وہ سربلند ہیں پربت کی چوٹیوں کی طرح

رفیق، مجھ سے بھی مفلس کے ساتھ رکھتے ہیں
عناد و بغض زمانے کے حاسدوں کی طرح

مَیں اپنے کھیت کی گندم چرانے والوں سے
الجھ پڑا ہوں مقدر کے زائچوں کی طرح

حضورؐ، کتنے مہاجن سروں پہ ہیں، ورنہ
اناج اگتا ہے سونے کی بالیوں کی طرح

بکاؤ مال ہے، آقاؐ، قلم کی عصمت بھی
نہیں حروف بھی شفاف آئنوں کی طرح
حضورؐ، زندہ مسائل کا بوجھ ہے مجھ پر
میں سانس لیتا ہوں مردہ معاشروں کی طرح

کتابِ دجل کی تمہید لکھ رہے ہیں نئی
یہ لوگ شہرِ سیاست کے پنڈتوں کی طرح

ہے میرا عذر حقیقت میں، یا رسول اللہ
نئی کتاب پہ بے جان تبصروں کی طرح

عمل سرشت میں شامل نہیں، مرے آقاؐ
جمود طاری ہے ذہنوں پہ پتھروں کی طرح

میں زر کی لال حویلی بنا نہیں پایا
حضورؐ، کب سے ہوں خالی ہتھیلیوں کی طرح

مری صدی کا یہ روشن خیال ہرجائی
ہجومِ نجم سے الجھا ہے کاہنوں کی طرح

متاعِ عشق سر عام بیچ دیتے ہیں
یہ نَقْب زن ہیں ریاست کے باغیوں کی طرح
یقیں کی دولتِ بیدار چھن چکی، آقاؐ
کہ داستاں ہے مری خود فریبیوں کی طرح

کتابِ عمر کے صفحات گنتا رہتا ہوں
کتابِ درد ہوں بستی کی بوڑھیوں کی طرح

فراتِ عشق کا زم زم بھی پی گئے دشمن
چناب و جہلم و راوی کے پانیوں کی طرح

حضورؐ، آگ سی دہکی ہوئی ہے سینوں میں
دھواں اٹھا ہے علاقے کی چمنیوں کی طرح

ہمارے ہاتھ میں تلوار ہے مگر، آقاؐ
کہیں پڑی ہوئی بے کار لاٹھیوں کی طرح

کفن بدن پہ سجا کر بھی جاگنا ہے مجھے
فصیلِ ارضِ وطن پر مجاہدوں کی طرح

وفا شناسی کے پودے لگا رہا ہوں ریاضؔ
مرا ہے کام گلستاں کے مالیوں کی طرح
تمام فیض ہے آقائے دوجہاںؐ کا، ریاضؔ
ہر ایک مصرعِ تر ہے محاوروں کی طرح

*

ورق ہے عرشِ معلی کی زینتوں کی طرح
ہر ایک لمحہ ہے میرا حضوریوں کی طرح

وضو کے بعد ہے ہر حرفِ نعت سجدے میں
دیارِ عشقِ محمدؐ میں مومنوں کی طرح

مرا بدن بھی ہے دیمک کی دسترس میں، حضورؐ
لکھے ہوئے، پسِ زنداں، کتابچوں کی طرح

انا مقیم ہے شہرِ مفاد میں آقاؐ
ہیں میری خواہشیں پھانسی کی گھاٹیوں کی طرح

حضورؐ، امتِ مضطِر کے ناخداؤں کا
ہر ایک کام ہے بے کار مشغلوں کی طرح

حضورؐ، اہلِ بصارت سمجھ نہیں پائے
ثنا کے لفظ ہیں بے لوث مشوروں کی طرح

دیے جلانے سے سرکارؐ خوف آتا ہے
شبِ سیاہ ہے سفّاک ساعتوں کی طرح

زمین تنگ ہوئی جا رہی ہے امت پر
مرے لہو کی سکڑتی ہوئی رگوں کی طرح

فصیلِ ارضِ وطن پر بڑا اندھیرا ہے
حضورؐ، نور کی بارش ہو ساونوں کی طرح

گداز و سوز ملے گفتگوئے حاکم کو
مقالِ سیدِ عالمؐ کی نرمیوں کی طرح

میں تخت و تاج سے لڑتا رہوں گا محشر تک
حضورؐ، عدل کی زندہ روایتوں کی طرح

کھڑا ہے ظلِ الٰہی ابھی جھروکے میں
حضورؐ، اس کی رعایا ہے سائلوں کی طرح
مرے فلک پہ ستارے نظر نہیں آتے
مری زمین ہے بے آب کھیتیوں کی طرح

پڑے ہوئے ہیں غریبوں کے بے کفن لاشے
امیرِ شہر کے در پر سوالیوں کی طرح

میں گونگے بہروں کی بستی میں دوں اذاں کب تک
اجاڑ قبروں کے بھوکے مجاوروں کی طرح

میں خوش نصیب ہوں بابِ بقیع کی جانب
بکھر رہا ہوں گلابوں کی پتیوں کی طرح

سمیٹ لیتا ہوں لفظوں کو اپنے دامن میں
قلم، حضورؐ، ہے ہاتھوں کی انگلیوں کی طرح

طلب ہر ایک، مصلّے پہ رکھ رہا ہوں میَں
خدا کے گھر میں پڑا ہوں سوالیوں کی طرح

خدا کے فضل کا طالب ہوں حشر میں، ورنہ
عمل ہیں میرے گناہوں کی گٹھڑیوں کی طرح
خدا کرے کہ وطن میرا جگمگا اٹھے
دیارِ لطف و کرم کی تجلیوں کی طرح

خدا کرے کہ ہو ہر لمحہ قصرِ رحمت میں
ثنائے مرسلِ آخرؐ کی دستکوں کی طرح

زوالِ عَصْر کا منظر ہے بستیوں پہ محیط
کسی غریب کی گم صم سی لڑکیوں کی طرح

مری زمین ہے پیاسی، حضورؐ، برسوں سے
ہر ایک بوند ہے زم زم کی چھاگلوں کی طرح

حضورؐ، پوچھا ہے لوگوں نے آج بھی مجھ سے
فقیہہِ شہر کبھی ہوگا عادلوں کی طرح

حضورؐ، نیند کا غلبہ ہے ہر کسی پہ ابھی
نہیں ہے کوئی بھی چوکس محافظوں کی طرح

کئی سوال بھی لکھّے ہوئے ہیں کتبوں پر
وطن کے لوگ ہیں خاموش تربتوں کی طرح
جلا چکے ہیں ثقافت کے نقشِ تابندہ
پڑے ہیں راہ میں تاریک مرگھٹوں کی طرح

تمام لوگ ہیں شامل تماش بینوں میں
جو کل تلک تھے ہمارے محاسبوں کی طرح

حضورؐ، جن کے تصرف میں رزق ہے میرا
وہ خود پسند ہیں اپنی ستایشوں کی طرح

حضورؐ، اپنی روایت سے دور ہے امت
سجے ہیں اہلِ مساجد نمایشوں کی طرح

حضورؐ پیرہنِ کاغذی بدل جائیں
مرے خلوص، مری انکساریوں کی طرح

میں نعت پڑھتا ہوں تصویر عجز کی بن کر
لحن ملا نہیں مجھ کو مغنّیوں کی طرح

درخت شہرِ نبیؐ کے ہیں میرے ہمجولی
میں ان پہ کُوکتا رہتا ہوں کوئلوں کی طرح
ادب سرشت میں شامل ہے ہم غلاموں کی
مقامِ عجز پہ رہتے ہیں عاجزوں کی طرح

قدم قدم پہ دھڑکتے ہیں دل کروڑوں کے
یہ کہکشاں نہیں سرکارؐ کی رہوں کی طرح

ہر ایک زائرِ طیبہ کے چوم لو تلوے
بچھو حضورؐ کی گلیوں میں دھڑکنوں کی طرح

خدا کا خوف ہے، ہر ہر قدم پہ ہمراہی
خدا کی دی ہوئی روشن بصیرتوں کی طرح

ہر ایک شعر میں اس کی ہے سسکیوں کا ہجوم
حضورؐ، نعت ہے امت کے مرثیوں کی طرح

اصول نام کی تہمت نہیں شکاری پر
غریب لوگ ہیں معصوم ہرنیوں کی طرح

ہے انتشار کا گرد و غبار آنگن میں
جلے ’’خداؤں‘‘ کے چہروں کی کالکوں کی طرح
کسی کو گھر کے در و بام کی خبر ہی نہیں
مکین گھر کے بھی لگتے ہیں رہزنوں کی طرح

نوائے اَمْن کو مرنے نہیں دیا، آقاؐ
حدیبیہ کی مقدس شرائطوں کی طرح

حضورؐ، آپؐ کے دامانِ عفو و رحمت میں
مچل رہا ہوں میں بچّوں کی شوخیوں کی طرح

اُسی کے سر پہ سجائی گئی ہیں دستاریں
جو ایک شخص ہے گھاٹی کی پستیوں کی طرح

بیان وصف کروں گا رسولِ اعظمؐ کے
مَیں اپنے آپ سے لمبے مکالموں کی طرح

مرے قبیلے کے اکثر جوان کہتے ہیں
بندھے ہیں ہاتھ ہمارے بھی بے بسوں کی طرح

بجز ثنا مری باقی حیات گزری ہے
سیاہ رات میں اختر شماریوں کی طرح
میں ایک عرصے سے جن کی تلاش میں تھا، ریاضؔ
وہ شہرِ زر میں ملے بھی تو حاکموں کی طرح

کوئی بھی راستہ، اِتنا حسیں نہیں لگتا
ریاضؔ، شہرِ پیمبرؐ کے راستوں کی طرح

ریاضؔ، ایک ادھورا سا آدمی ہے، حضورؐ
اسے بھی عزم کی لاٹھی گرے پڑوں کی طرح

*

لکھوں میں نعت، پیمبرؐ کی، سعدیوں کی طرح
گلابِ نور کھلیں لب پہ جامیوں کی طرح

خدا کرے مری بزمِ خیال بھی مہکے
حدودِ خلدِ مدینہ کی نزہتوں کی طرح

حضورؐ، شاعرِ گمنام کی گزارش ہے
مرے حروف ہوں زندہ علامتوں کی طرح

تمام خوشبوئیں سمٹی ہوئی قلم میں ہوں
تمام لفظ ہوں ریشم کی ڈوریوں کی طرح

سفر، حضورؐ کے شہرِ ادب کا، کیا کہنا
شجر کھڑے ہیں لئے ہار بیلیوں کی طرح

کہاں وہ مہر و محبت کے سرمدی موسم
کہاں وہ دعوتیں طیبہ کی دعوتوں کی طرح

حصارِ جَبْر میں نسلیں جوان کیا ہوں گی
سحر طلوع ہو پھر خوش نصیبیوں کی طرح

دیے جلانے کا منصب عطا کریں مجھ کو
کروڑ ہا، مرے آقاؐ، نوازشوں کی طرح

خدا کا شکر ہے، بچّوں کے دونوں ہاتھوں پر
چراغِ نعت ہیں میری ہتھیلیوں کی طرح

ملے گا نعت کا بے شک صلہ بھی مَحشْر میں
بیاضِ نعتِ نبیؐ ہے سفارشوں کی طرح
خدا مجھے بھی تو جنت میں دے یہی رم جھم
مدینہ پاک کی دلکش حسیں رتوں کی طرح

صبا کی تھام کے انگلی پہنچ ہی جاؤگے،
درِ حضورؐ پہ خوشبو کے جمگھٹوں کی طرح

قلم سے پھول یقینا جھڑیں گے تختی پر
ضرور سعی کرو، میری کوششوں کی طرح

سحاب ارضِ مدینہ سے جھوم کر اٹھے
نہیں سراب بھی صحرا میں جھاڑیوں کی طرح

حضورؐ، خواب بکھرنے لگے ہیں نَسْلوں کے
مرے سخن سے بکھرتی اداسیوں کی طرح

ملا ہے جو بھی پیمبرؐ کے واسطے سے ہمیں
خدا کا حکم ہے ہیرے کی سختیوں کی طرح

میں خود غرض ہوں، زمانے میں، ہادئ برحقؐ
مرے مفاد بدن پر ہیں ظلمتوں کی طرح
لپٹ گیا ہے مری ذات کی چٹانوں سے
حضورؐ، خوف، توہم پرستیوں کی طرح

تمام بیبیاں سر سے برہنہ ہیں، آقاؐ
تمام بچے بھی ہیں پرچمِ نگوں کی طرح

حضورؐ پیاس کی شدت سے دم نکلتا ہے
حضورؐ لوگ ہیں مقتل میں زخمیوں کی طرح

سروں پہ آج بھی کرب و بلا کا سورج ہے
امڈ رہے ہیں حوادث قیامتوں کی طرح

حضورؐ، آپؐ کا در چھوڑ کر کہاں جائیں
تمام کفر کے داعی ہیں قاتلوں کی طرح

مبالغے کا مَیں قائل نہیں مگر ہمدم!
ہیں میرے لفظ مری اشکباریوں کی طرح

حضورؐ، جائے سکونت کہیں نہیں ملتی
مَیں اپنے ملک میں ہوں غیر ملکیوں کی طرح
کرم کرم کہ ہے امت دیارِ مغرب میں
ذلیل و خوار، عدالت میں پیشیوں کی طرح

پگھل رہا ہے ہواؤں میں رنگ و بو کا بدن
مرے لہو کی سلگتی حرارتوں کی طرح

غبارِ زر کے تعاقب میں ہے یہ صدیوں سے
مرے حضورؐ کی امت یہودیوں کی طرح

حضورؐ، سوچ بھی دیمک زدہ ہے شاہوں کی
حرم میں بند ہیں، بستی کے کوڑھیوں کی طرح

کدھر سے گزرا ہے شاداب موسموں کا جلوس
تمام پھول ہیں چہرے کی زردیوں کی طرح

تمام مشکلیں آساں کرے گا میرا خدا
پڑے رہو، درِ آقاؐ پہ عرضیوں کی طرح

حضورؐ، سامنے رہتا ہے کرب کا منظر
مرے بدن پہ برستی اذیتوں کی طرح
امیر ملک سے جھوٹی تسلیاں، آقاؐ
ملی ہیں آج بھی مالک کی جھڑکیوں کی طرح

فقیہہِ شہر سے لوگوں کو خوف آتا ہے
سزا نہ دے انہیں جھوٹے مقابلوں کی طرح

شبِ عذاب مسلط ہے ارضِ خاکی پر
خدائے وقت کی اِن چیرہ دستیوں کی طرح

حضورؐ، امتِ بے نور کس طرف جائے
ہر ایک راستہ تاریک ہے شبوں کی طرح

حضورؐ، قتل گہوں کی سجی ہیں دیواریں
غبارِ شر ہے اٹھا سرخ آندھیوں کی طرح

عذابِ قبر کے منظر قدم قدم پر ہیں
کفن فروش لٹیروں کے مدفنوں کی طرح

حضورؐ، لب بھی مقفل ہیں عام شہری کے
بغیر جرم کے محبوس قیدیوں کی طرح
حضورؐ، جن کو نوازا گیا ہے دنیا میں
ملے ہیں جب بھی ملے ہیں تنی بھووں کی طرح

مجھے یقین ہے اِمشب بھی میرا ہر آنسو
قلم کی نوک سے لپٹے گا خواہشوں کی طرح

قضا سے خیر کی امید ہو نہیں سکتی
امیرِ شہر ہے خالی سی گاگروں کی طرح

مَیں کس کے سر پہ سجاؤں گا تاج عظمت کا
حضورؐ، وقت کے حاکم ہیں تلچھٹوں کی طرح

اگا رہے ہیں مرے کھیت بھوک کی فصلیں
شدید پیاس ہے ہونٹوں پہ مخمصوں کی طرح

مرا وجود ہے، سرکارؐ، کب سے لاوارث
کباڑ خانے میں گیلے مسوّدوں کی طرح

کئی دنوں سے، نبی جیؐ ہمارے ہاتھوں میں
عذاب نامے ہیں لوہے کی بیڑیوں کی طرح
تمام میرے وسائل نگل، رہے ہیں، حضورؐ!
مرے ندیم بھی، بے کار افسروں کی طرح

یہ خام مال بھی بے کار ہوچکا ہے، حضورؐ
کہ ضعفِ مرگ ہے بیمار صنعتوں کی طرح

نجات کے لئے اتنا ریاضـؔ کافی ہے
میں منتظر ہی رہوں، اُنؐ کا عرشیوں کی طرح

کروڑ بار بھی مجھ کو عطا اگر ہو، ریاضؔ
نثار جان کروں گا میَں عاشقوں کی طرح

قلم، سفیر علوم و فنون کا ہے ریاضؔ
حریمِ شعر ہے روشن سفارتوں کی طرح

*

وسیع ارض و سما کی ہے وسعتوں کی طرح
کہاں ہے نعت ممالک کی سرحدوں کی طرح

ابھی تو جرمِ ضعیفی کی یہ سزا کم ہے
صدی کٹے گی عدالت میں پیشیوں کی طرح

حضورؐ، ملتِ بیضا کے سب ہی دشمن ہیں
ضمیرِ مردہ کے حامل فرنگیوں کی طرح

مرے وطن کے مقدر سے کھیلنے والے
بنا رہے ہیں ستارے نجومیوں کی طرح

سجود ثبت ہیں جن کے حرم کے دامن میں
مرا قلم بھی ہے ایسے نمازیوں کی طرح

حروف عشق کے اوراق پر فروزاں ہیں
فلک پہ بکھرے ہوئے ان گنت نگوں کی طرح

ہر ایک سانس نویدِ ثنا سناتی ہے
ورق ورق پہ ستاروں کے جھرمٹوں کی طرح

مَیں طشتِ دل کے کناروں پہ پھول رکھتا ہوں
ہر ایک پھول ہے ایماں کے بندھنوں کی طرح
پرو کے لایا ہوں اشکوں کے ہار مَیں، آقاؐ
ہر ایک اشک ہے شفاف آئنوں کی طرح

حضورؐ ہانکتے ابرِ کرم کی چھڑیوں سے
مَیں، کاش ہوتا حلیمہؓ کی بکریوں کی طرح

بچا سکا نہیں لنکا، حضورؐ، مَیں اپنی
مرے حلیف ہی تھے گھر کے بھیدیوں کی طرح

حضورؐ، زندہ مسائل کے گہرے پانی میں
مَیں بہہ رہا ہوں غریبوں کی جھگیوں کی طرح

قبول کر مرے مولا! دعائیں بچّوں کی
حصارِ ارضِ غلاماں ہے آنسوؤں کی طرح

مرے نبیؐ کی کنیزوں کے ہاتھ اٹھے ہیں
کھڑی ہیں آمنہ بی بیؓ کی باندیوں کی طرح

سنا ہے عَدل کی زنجیر ہلنے والی ہے
کریں گے فیصلہ وہ میرے منصفوں کی طرح
حضورؐ سیدِ عالی نسب! مدد کیجیے
بھنور میں رہتا ہوں، تنکوں پہ آسروں کی طرح

سپاٹ چہرے ہیں ہر آئنے میں ٹھہرے ہوئے
سراپا لوگ ہیں کچھ لفظی ترجموں کی طرح

حضورؐ، میری رعایا کے لب مقفل ہیں
مَیں چُپ کھڑا ہوں ریاست کے والیوں کی طرح

مَیں خیر و شر میں بھی تفریق کر سکوں، آقاؐ
پرکھ عطا کریں مردم شناسیوں کی طرح

حضورؐ، دانشِ مشرق نے گل کھلائے ہیں
چتا کی آگ میں اڑتی سی سسکیوں کی طرح

حضورؐ، بازوئے شمشیر زن ہمارے بھی
بدن کے ساتھ لٹکتے ہیں چیتھڑوں کی طرح

مرا یہ عہد جو تیرہ شبی کا پیکر ہے
ہو عہدِ نور کی روشن صداقتوں کی طرح
جلیں، حضورؐ، گلستاں میں عافیت کے چراغ
فساد ختم ہوں، گھر کے معاملوں کی طرح

حضورؐ، کوئے سیاست کے مردہ خانے میں
ہوس کا شور ہے وقتی ضرورتوں کی طرح

حضورؐ، سبز گھروندے کی سبز مٹی سے
صدائیں آتی ہیں دشمن کے مورچوں کی طرح

حضورؐ، اپنے مفادات کے جو قیدی ہیں
یہی تو لوگ ہیں شر کے مصاحبوں کی طرح

حضورؐ، لوگ لبادہ بھی اوڑھ لیتے ہیں
فریب خوردہ، عطائی معالجوں کی طرح

خدائے عِلم کا یہ حکم ہے مسلمانو!
جیؤ تو صرف نبیؐ کے صحابیوں کی طرح

حضورؐ، خون کا رشتہ ہے جن عزیزوں سے
ملے ہیں وہ بھی دسمبر کی سردیوں کی طرح
گواہ میرے بھی سب منحرف ہوئے ہیں، حضورؐ
خرید کردہ عدالت کے قاضیوں کی طرح

عمل کے باب میں کردار جن کے روشن تھے
وہ لوگ زندہ ہیں سچی کہانیوں کی طرح

احد کے دامنِ صد رنگ میں گلاب کھلے
ہوائے پاک ہے شبنم فشانیوں کی طرح

ہر ایک شخص کا ہو احتساب دنیا میں
زمیں پہ حشر بپا ہو مواخذوں کی طرح

درِ حضورؐ پہ نقشِ قدم ہیں زائر کے
مَیں سر پہ رکھتا ہوں عزت کی پگڑیوں کی طرح

پلا کے دودھ جنہیں آستیں میں پالا تھا
حضورؐ، لوگ وہ ڈستے ہیں اژدہوں کی طرح

بہت سے لوگ محافظ ہیں قتل گاہوں کے
مری زمیں پہ ہلاکو کے ساتھیوں کی طرح
سجا رہے ہیں نئے بولہب نئے مقتل
حضورؐ، مکہ و طائف کے سرکشوں کی طرح

حضورؐ، چھوٹے ممالک پہ آج کے نمرود
گرفت رکھتے ہیں قاتل کے بازوؤں کی طرح

ضعیف، خوفزدہ ملک کا ہوں باشندہ
حضورؐ، لوگ ہیں ظالم کے حامیوں کی طرح

صراطِ عشق سے بھٹکی ہوئی یہ بدروحیں
قدم قدم پہ ہیں فکری مغالطوں کی طرح

مرے خدا، ہے مری التجا کہ محشر تک
ہو میری نسل نبیؐ کے سپاہیوں کی طرح

حضورؐ، کیسے سلاطیں ہیں بزمِ ہستی میں
چمکتے سکّے ہیں دیوی کے درشنوں کی طرح

ہمیں بھٹکنے کی عادت ہے ریگ زاروں میں
ہمارے ذہن ہیں پرپیچ گھاٹیوں کی طرح
حضورؐ، عہدِ مبارک کا عکس روشن ہو
مری زمیں پہ ستاروں کے قافلوں کی طرح

فصیلِ ارضِ وطن پر، حضورؐ، مجھ کو بھی
ہوائیں کھول دیں سرسبز پرچموں کی طرح

حضورؐ، میرے مخالف کے ہاتھ خالی ہیں
شریف لوگوں کے گھر کی تلاشیوں کی طرح

شکاریوں کا تعاقب کبھی نہیں رکتا
حضورؐ، لوگ ہیں جنگل کے آہوؤں کی طرح

حضورؐ، عدل کے خوں کے ہزار ہا قطرے
ہیں روزِ حشر کی روشن نشانیوں کی طرح

یہی، حضورؐ، سکھایا ہے اپنے بچّوں کو
گرو تو خرمنِ دشمن پہ بجلیوں کی طرح

حضورؐ، دخترِ حوّا، اجاڑ آنگن میں
اداس رہتی ہے، مندر کی داسیوں کی طرح
صدا لگاتے ہیں چہرے بدل بدل کے ریاضؔ
فقیر شہرِ سیاست کے شاطروں کی طرح

خدا کا فضل ہے تجھ پر، ریاضؔ، ازلوں سے
ہر ایک لمحہ ہے مدحت کی خوشبوؤں کی طرح

ہر ایک عکس منور ہے زندگی کا ریاضؔ
عرب کی ریت کے ذرے ہیں آئنوں کی طرح

حضورؐ، آپؐ کی امت کا نوحہ گر ہے ریاضؔ
کلام اس کا ہے سینے میں برچھیوں کی طرح