تلاش ہَے یدِ بیضا کی ہم غلاموں کو- دبستان نو (2016)

یہ کیسا موسمِ گل ہَے کہ جس کے دامن میں
گلاب حسرتِ دیدار کے نہیں کِھلتے
چراغ رقص میں آتا نہیں غلامی کا
ضمیر مردہ ہَے بوئے چمن کا صدیوں سے
برہنہ سر ہیں ہواؤں کے قافلے ہر سو
کتابِ دیدہ و دل کے ورق ادھورے ہیں
قضا مقیم ہَے اجڑے ہوئے نشیمن میں
یہ کیسا موسمِ گل ہَے کہ جس کے دامن میں
گرا نہیں کبھی شبنم کا ایک بھی قطرہ
روش روش پہ بچھاتے ہیں ہم صفِ ماتم
فضائے آخرِ شب ہَے سیہ لبادے میں
نہ تتلیوں کی اڑانیں نہ جگنوؤں کی چمک
تمام پھول بنے رزق بادِ صرصر کا
حصارِ خوف میں بادِ صبا کی کُٹیا ہَے
تمام رنگ دھنک کے ہیں خاک آلودہ
تمام بجھتے چراغوں میں روشنی کم ہَے
فضا میں سبز پرندہ کوئی نہیں اڑتا
خیال و خواب ہوا رقص موسمِ گل کا
نہ خوشبوؤں کی ہتھیلی پہ ہَے دیا کوئی
کفن میں لپٹی ہوئی لاش ہَے بہاروں کی
یہ کیسا موسمِ گل ہَے کہ جس کے دامن میں
چراغِ نسبتِ خیرالبشرؐ نہیں جلتے
وہ ساربان عرب کے کہاں گئے مولا!
کہاں گئی مرے ماضی کی روشنی یا رب!
جمال و حسنِ مدینہ نظر نہیں آتا
چلو حضورؐ کے قدموں میں جا کے عرض کریں
کرم کی ایک نظر کی ہَے منتظر دنیا
تلاش ہَے یدِ بیضا کی ہم غلاموں کو
حضورؐ، دستِ مبارک اٹھیں دعا کے لئے
حضورؐ، بادِ بہاری کو حکم چلنے کا
حضورؐ، شاخِ برہنہ پہ چادرِ رحمت
حضورؐ، عشق کی دولت ملے غلاموں کو
حضورؐ، امن کے پرچم کُھلیں فصیلوں پر
حضورؐ، موسمِ گل کا خمیر بھی بدلے
حضورؐ، کب سے اداسی ہَے بام و در پہ محیط
حضورؐ، خوف میں ڈوبی ہوئی ہَے ہر بستی
حضورؐ، غم کے سمندر گلی میں آ پہنچے
حضورؐ، چاند ستارے زمیں پہ آ جائیں
حضورؐ، علم کی چادر بچھے چٹانوں پر
حضورؐ، حکمت و دانش کی کشتیاں ہوں رواں
حضورؐ، موسمِ گل میں جلیں چراغِ ہنر
حضورؐ، میری قیادت کو روشنی ہو نصیب
چراغ رقص کریں پھر مری غلامی کے
قضا قیام کرے دور آسمانوں میں
شگفتہ پھول شگفتہ رہیں بہاروں میں
روش روش پہ بچھے موسمِ ثنا آقاؐ
فضائے آخرِ شب روشنی سے بھر جائے
حصارِ خوف سے نکلے صبا دلھن کی طرح
تمام رنگ دھنک کے سجیں ہتھیلی پر
فضا پہ سبز پرندوں کی حکمرانی ہو
چراغِ نسبتِ خیرالبشرؐ جلیں یارب!
جمال و حسنِ مدینہ رہَے نگاہوں میں
حضورؐ، خوفِ مسلسل کے سرخ پانی سے
ملے نجات سمندر میں ہر جزیرے کو
سروں پہ آپؐ کی رحمت کے سائبان کُھلیں
لبوں پہ ورد ہو جاری خدائے واحد کا
بشر بشر کرے حکمِ اِذاں کی پابندی
زمیں پہ عَدْل کا موسم مقیم ہو آقاؐ
خدا کے حکم سے جاری ہو چشمۂ رحمت
خدا کے فضل سے مہکے غریب کا آنگن
عطائے عفو و کرم کی چلے نسیمِ سحر
گداز و سوز کی مشعل جلے ضمیروں میں
دعائیں بانٹنے نکلیں گلاب مدحت کے

حضورؐ، اذن حضوری کا آفتابوں کو
ہوائیں کھول دیں خوشبو بھری کتابوں کو