یہ انتظار کی شب بھی عظیم ہَے کتنی- دبستان نو (2016)

افق افق پہ ستارے ہیں خیمہ زن کب سے
طلوعِ فجر کا منظر محیط ہَے شب پر
زمین کب سے ہے رعنائیوں کے جھرمٹ میں
فصیلِ ارض و سماوات پر چراغاں ہے
نفَس نفَس میں ہَے کس کے جمال کی ٹھنڈک
قدم قدم پہ صبائے چمن کے خیموں میں
حروفِ صلِّ علیٰ کی ہَے کہکشاں اتری
ہوا کی سبز ہتھیلی پہ ہیں گلابِ درود
دھنک نے گُل کے لبوں کو ہَے بارہا چوما
دیارِ نطق و بیاں پر کرم کی رم جھم ہَے
ورق صحائفِ اقدس کے جگمگا اٹھّے
یہ انتظار کی شب بھی عظیم ہے کتنی
ازل سے جس کے لئے منتظر ہَے چشمِ فلک
وہ صبحِ جشنِ مسرت طلوع ہوتی ہے
بہار پھول اٹھائے کھڑی ہَے صدیوں سے
دیارِ لالہ و گل میں ہَے خوشبوؤں کا ہجوم
کئی دنوں سے سرِ عرش حور و غِلماں میں
عروجِ آدمِ خاکی کے تذکرے ہیں بہت
بساطِ عشق پہ اترا ہَے کاروانِ ادب
لُغت کا حُسنِ تکلّم ہے حرفِ مدحت میں
صبا کے دستِ تمنّا میں ہَے قلم میرا
بڑے یقیں سے، بڑے احترام سے اِمشب
ہوائے مکّہ نے لکھّا ہَے بابِ کعبہ پر

رسولِ اوّل و آخرؐ زمیں پہ آتے ہیں
نفاذِ عدل کا مژدہ ہمیں سناتے ہیں