کئی دنوں سے مہاجن ہیں بستیوں میں مقیم- دبستان نو (2016)

قلم نے شامِ حوادث میں مجھ سے پوچھا ہَے
کئی دنوں سے چراغاں نہیں ہوا دل میں
کئی دنوں سے شمیمِ سحر نہیں آئی
کئی دنوں سے مقفّل ہیں لب کتابوں کے
کئی دنوں سے کوئی روشنی نہیں چمکی
کئی دنوں سے فسردہ ہَے شامِ تنہائی
کئی دنوں سے فلک سے دھنک نہیں اتری
کئی دنوں سے ہوائے چمن ہَے رنجیدہ
کئی دنوں سے تلاطم نہیں ہَے موجوں میں
کئی دنوں سے خموشی ہَے میرے ہونٹوں پر
کئی دنوں سے مقیّد شفق کی سرخی ہے
کئی دنوں سے ورق پر نہیں لگا میلہ
کئی دنوں سے گریزاں ہَے چاندنی مجھ سے
کئی دنوں سے ہَے خوشبو خزاں کے ہاتھوں میں
کئی دنوں سے ہَے تشنہ لبی مقدّر میں
کئی دنوں سے ہَے رخصت پہ سبز رعنائی
کئی دنوں سے سجائی گئی نہیں محفل
کئی دنوں سے نہیں رقص میں کوئی تتلی
کئی دنوں سے ہَے روٹھی ہوئی صبا مجھ سے
کئی دنوں سے ہَے ہر پھول بھی سرِ مقتل
کئی دنوں سے ہیں جگنو اداس جنگل میں
کئی دنوں سے گھٹائیں ہیں برف زاروں میں
کئی دنوں سے ہیں گرد و غبار میں آنکھیں
کئی دنوں سے کٹورے ہیں آب سے خالی
کئی دنوں سے سماعت کی کھڑکیاں ہیں بند
کئی دنوں سے دریچے نہیں ہوئے روشن
کئی دنوں سے سلامت نہیں یقیں کا بدن
کئی دنوں سے کرن ایک بھی نہیں جاگی
کئی دنوں سے مہاجن ہیں بستیوں میں مقیم
کئی دنوں سے ہراساں ہَے حرفِ تابندہ
کئی دنوں سے ستارے نظر نہیں آئے
قلم نے شامِ حوادث میں ہَے کہا مجھ سے
ریاضؔ! آپ کی غفلت کا یہ نتیجہ ہے
قلم، دوات سنبھالیں، ثنا لکھیں اُنؐ کی

درود آپؐ پہ، لاکھوں سلام بھی بھیجیں
سلام شہرِ پیمبرؐ کے نام بھی بھیجیں