کرم کہ مجھ کو ردائے کرم عطا کی ہَے- دبستان نو (2016)

درِ حضورؐ کا صدقہ اتارنے کے بعد
در حضورؐ پہ رکھنا سلگتی آنکھوں کو
ریاضؔ، اشکِ مسلسل سے پھر وضو کرنا
دیارِ عشق کی پگڈنڈیوں پہ جھک جھک کر
نگار و نقش بنانا دھنک کے رنگوں سے
قدم قدم پہ غلاموں کے پرچموں کی بہار
ترے شعورِ عقیدت کا آئنہ ہو گی
فصیلِ جاں پہ سجانا درود کی شبنم
بڑے ہی عجز سے کہنا، حضورؐ، صدیوں سے
بھٹک رہا تھا مَیں ریگِ رواں کے صحرا میں

کرم ہَے آپؐ نے در پر مجھے بلایا ہے
کرم، بساطِ ادب پر کھڑی ہَے بینائی
کرم کہ مجھ کو ردائے کرم عطا کی ہے
کرم کہ میرا مقدّر ہَے روشنی کا ہدف
کرم کہ اشکِ ندامت سلگتے رہتے ہیں
کرم کہ اپنے گناہوں پہ دل سے نادم ہوں
کرم کہ آپؐ کی گلیوں کا اک بھکاری ہوں
کرم کہ کِشتِ تمنّا میں پھول مہکے ہیں
کرم کہ آپؐ کا روضہ ہَے آرزو کا کمال
کرم کہ تشنہ لبوں پر بہار اتری ہے
کرم کہ نعت سے دامن نہیں تہی میرا
کرم کہ چشمِ تصوُّر ہَے آپؐ کی باندی
کرم کہ آبِ کرم ہَے رواں مرے لب پر
کرم کہ نسل مری مفتخر ہے صدیوں سے
کرم کہ غیر کا دامن کبھی نہیں تھاما
کرم کہ آپؐ کے در پر سوال کرتا ہوں
کرم کہ طوقِ غلامی گلے میں رہتا ہے
کرم کہ تشنہ لبوں پر گلاب کِھلتے ہیں
کرم کہ آپؐ کا دستِ عطا سروں پر ہَے
کرم کہ چاند ستارے رقم ہیں ہاتھوں پر
کرم کہ ابرِ کرم پیرہن ہَے بچوّں کا
کرم کہ گھر کی کنیزیں سلام کہتی تھیں
کرم کہ ارضِ بدن پر سحاب اترے ہیں
کرم کہ خوف کا موسم نہیں گلستاں میں
کرم کہ قصرِ یقیں میں چراغ جلتے ہیں
کرم کہ نطق و بیاں عاجزی کے گھر میں ہیں
کرم کہ شہرِ منوّر کی خاک کو چوموں
کرم کہ حرفِ محبت سجا ہَے ہونٹوں پر
کرم کہ دستِ ہنروَر سے خوشبوئیں لپٹیں
کرم کہ میری اَنا کا بھرم بھی قائم ہَے
کرم کہ سبز پرندے فضا میں اڑتے ہیں
کرم کہ سانس میں جگنو بھی ہیں درودوں کے
کرم کہ پیرِ فلک مہربان ہَے ہر دم
کرم کہ دامنِ امید ہاتھ میں ہَے ابھی
کرم کہ نقشِ قدم کی ہَے آرزو دل میں
کرم کہ آپؐ کی چوکھٹ پہ سرنگُوں ہے ریاضؔ
کرم کہ آج بھی دامن بچھائے بیٹھا ہوں

حضورؐ، نذر کروں دل کہ وہ تو پہلے ہی
نثار آپؐ کے قدموں میں کر چکا شاعر
چراغِ اشک ہتھیلی پہ جو سجائے تھے
وہی چراغ مَیں سرکارؐ لے کے آیا ہوں
انہی چراغوں میں بچوّں کی چاند سی آنکھیں
چھلک رہی ہیں محبت سے یا رسولـؐ اللہ
انہی چراغوں میں میرے وطن کی خوشبو ہے
یہ اشک جن میں عقیدت کی روشنی ہے بہت
حضورؐ، دستِ عطا سے قبول فرمائیں
بہت اداس ہَے شاعر دیارِ ہجراں میں
حضورؐ، اذنِ سکونت کا ہے تمنائی
درِ جناب پہ حیرت کے پھول رکھتا ہے
سحر سے شام تلک آسماں سے کہتا ہے

ہوائے خلدِ مدینہ سے دوستی ہو گی
ضرور شہرِ دل و جاں میں روشنی ہو گی