سرِ شمس و قمر دیکھوں، پسِ شام و سحر دیکھوں- زر معتبر (1995)

سرِ شمس و قمر دیکھوں، پسِ شام و سحر دیکھوں
تِراؐ چہرہ ہی آتا ہے نظر آقاؐ جدھر دیکھوں

جو ہے نغمہ سرا پنچھی ازل سے میرے ہونٹوں پر
اُسے شاخِ صدا پر کیوں کبھی بے بال و پر دیکھوں

یہ فیضانِ ثنائے سرورِ کونین ہی تو ہے
میں اپنے گھر کی تاریکی میں بھی شمس و قمر دیکھوں

ہوا نے کانچ کے ٹکڑوں پہ رکھا ہے بدن میرا
میں شہرِ سنگ و وحشت میں محبت کا شجر دیکھوں

روانہ ہو رہے ہیں قافلے پھر جانبِ طیبہ
بڑی حسرت سے میں اب کے بھی تیریؐ رہگذر دیکھوں

بہت ممکن ہے بن جاہے شبیہہِ روضۂ اطہر
مَیں کشکولِ دُعا کو آنسوؤں سے کیوں نہ بھر دیکھوں

اگرچہ سوت کی اٹی بھی ہاتھوں میں نہیں میرے
کمالِ آرزو ہے آرزو تیریؐ بھی کر دیکھوں

کرن کوئی اتر آئے کہ کب تک یارسول اﷲ
ردائے شب میں کفنائے ہوئے دیوار و در دیکھوں

نشیمن سے دُھواں اُٹھتا رہے گا کب تلک مولاؐ
گلستانِ تمنّا میں بہارِ معتبر دیکھوں

ریاضؔ اپنی ثنا خوانی کا یہ ادنیٰ کرشمہ ہے
مقدّر کے ستارے کو سرِ شہرِ ہنر دیکھوں