کبوتر گنبدِ خضرا کے اس سے پیار کرتے ہیں- دبستان نو (2016)

بہت ممنون ہوں چشمِ تصوُّر کا، مری انگلی
پکڑ کر مجھ کو لے جاتی ہَے طیبہ کی فضاؤں میں
تعارف میرا کرواتی ہَے طیبہ کی گھٹاؤں سے
کہ یہ بھی ایک دیوانہ ہے سرکارِ دو عالمؐ کا
اِسے بخشا گیا ہَے مدحتِ آقاؐ کا سرمایہ
اِسے بھی شہرِ طیبہ کی ہر اک شے جاں سے پیاری ہے
اِسے بھی رَقص کرتی کہکشاؤں سے محبت ہے
ادب سے گنبدِ خضرا کی چھاؤں میں یہ رہتا ہَے
کبوتر گنبدِ خضرا کے اس سے پیار کرتے ہیں
اسے بے چین کر دیتی ہیں ان کی سبز پروازیں
عزیزانِ مدینہ سے بہت ہَے دوستی اِس کی
مدینے کے تصوُّر میں یہ گم رہتا ہَے پہروں تک
ہَے شہرِ نور کے بچّوں کے قدموں کا تمنّائی
اِسے حسرت ہَے یہ اُن کا کھلونا ہی کبھی ہوتا
ادب سے اُن کے ہاتھوں پر دیا کرتا بہت بوسے
ہوائے شہرِ طیبہ سے ہے ہوتی گفتگو اس کی
نبیؐ کے نام لیواؤں کے پاؤں چوم لیتا ہَے
سدا رکھتا ہَے لفظوں میں گداز و سوز کی مَشعل
درودوں کی اِدھر رم جھم، سلاموں کی اُدھر برکھا
فضائے مدحتِ سرکارؐ میں یہ سانس لیتا ہے
تلاشِ نقش پائے مصطفیٰؐ میں اِس کی آنکھیں ہیں
مرے بختِ رسا! تیری مَیں پیشانی پہ بوسہ دوں
ہوائیں کہہ رہی تھیں میرے اشکوں کے سمندر سے
چلو اِس شاعرِ سرکارؐ کو ہم ڈھونڈنے نکلیں
چلو اِس سے نئی نعتوں کے مضموں جا کے سنتے ہیں
چلو اس سے یہ پوچھیں شہرِ طیبہ کیسا لگتا ہے

وہ تصویرِ ادب بن کر مواجھے میں کھڑا ہو گا
وہ یا دہلیزِ پیغمبرؐ کے اُس جانب رکا ہو گا