زمیں انکار کر دے بھوک کی فصلیں اگانے سے- دبستان نو (2016)

کوئی نایاب لمحہ، یا خدا! میرے قلم کو دے
مرے ہر لفظ سے نکلیں تری توصیف کے سورج
شعورِ بندگی سے ہر افق میرا منّور ہو
ورق پر ہوں مری کلکِ ادب کے ان گنت سجدے
جبینیں ہی نہیں آنکھیں بھی سجدہ ریز ہوں، یارب!
حروفِ التجا، اشکِ رواں کے ہوں سمندر میں
ردا ابرِ کرم کی میرے اشکوں سے بُنی جائے
تُو لا محدود ہَے یا رب! کوئی ثانی نہیں تیرا
حدودِ پادشاہی کا تصوُّر ہی نہیں ممکن
ترے انوار کی رم جھم گرے قلبِ پریشاں پر
مرادوں سے تو بھر دامن خدایا! اپنے بندوں کا
دکھا تُو منحرف چہروں کو بھی رستہ اخوّت کا
نفاذِ عدل کے موسم کو عمرِ جادواں دے دے
ہمیں جھوٹے خداؤں کے تسلط سے رہائی دے
حقوقِ نَسلِ انسانی ہدف ہَے ظلمتِ شب کا
خدا بننے کا فتنہ کتنے ذہنوں میں سمایا ہِے
خدایا! ابرِ رحمت چلچلاتی دھوپ میں برسے
افق سے جو اٹھی ہَے سرخ آندھی، روک لی جائے
گلی میں سرخ پھولوں کے مسلسل قافلے اتریں
الٰہی! جب ترا ابرِ کرم برسے زمینوں پر
تو اس کے لب درودِ مصطفیٰ کا ورد کرتے ہوں
ہواؤں کو مقفّل جو کرے وہ سب کا مجرم ہَے
اداسی گھر کی دیواروں سے کوسوں دور ہو یارب!
خدائے آسماں! ممکن ہو اب ہر کھیت میں میرے
زمیں انکار کر دے بھوک کی فصلیں اگانے سے
چلے ابرِ رواں بنجر زمینوں کی طرف، یارب!
ہوائیں ہر دریچے میں چراغِ آرزو رکھیّں
چمن کی خوشبوئیں بچوں کے خوابوں میں اتر جائیں
ہوائے امن بستی کے مکینوں کا مقدّر ہو
فضا میں امن کی اب فاختاؤں کا لگے میلہ
خوشی کے ان گنت لمحے چُنے حوّا کی ہر بیٹی
کرم کا دائرہ پھیلے غریبوں کے مکانوں تک
سکونِ قلب کی بادِ بہاری رقص میں آئے
قبیلے کے جواں غفلت کی گہری نیند سے جاگیں
بزرگوں کو تھما دی جائے لاٹھی علم و حکمت کی
ترے محبوبؐ کا فرمان جاری ہر نگر میں ہو
کوئی نایاب لمحہ، یا خدا! میرے قلم کو دے
کوئی نایاب لمحہ، یا خدا! میرے سخن کو دے
کوئی نایاب لمحہ، سوچ کے پامال دامن میں
کوئی نایاب لمحہ دے حضوری کے جزیرے پر
کوئی نایاب لمحہ خلدِ طیبہ کی فضاؤں میں
کوئی نایاب لمحہ چشمِ حیرت کے افق پر دے
کوئی نایاب لمحہ حجلہُ افکار میں اترے
قلم میرا کِھلائے پھول ایوانِ محبت میں
ورق پر روشنی میلہ لگائے اُنؐ کی مدحت کا
صبا مصرع اٹھا لائے کوئی شہرِ تخیل سے
غزل کا سہ بکف ٹھہرے ابھی سرکارؐ کے در پر
سخن کی وادیؐ دلکش سمیٹے چاند کی کرنیں
بیاضِ نعت کے اوراق الٹیں خوشبوئیں آکر
چراغاں ہی چراغاں قریۂ فکر و نظر میں ہو
اجالے کہکشاؤں کے بساطِ حسن پر اتریں
درودِ مصطفیٰؐ لب پر سجا کر روشنی نکلے
ردائے عافیت کوہ و دمن میں پھیلتی جائے
ہر اک آنگن میں خوشحالی کے موسم کی پڑے برکھا
ہر اک بچے کی تختی کو سلامت رکھ مرے مولا!
ہر اک بچے کے لب پر مدحتیں خیرالبشرؐ کی ہوں
مَیں اپنے دکھ بھلا بیٹھا ہوں اے ارض و سما والے!
مقدر میرے بچّوں کا ستاروں سے لکھا جائے
مرے بچّوں کے دامن میں ملے پھولوں کی رعنائی
مرے بچّوں کو دے تُو ارتقا کی سیڑھیاں، یارب!
مرے بچّوں کو پاکیزہ فضاؤں کی ملے سنگت
مرے بچّوں کے ہر اک خواب کی تعبیر ہو طیبہ
مرے بچّوں کا ہر لمحہ ثنا کرتے ہوئے گذرے
مرے بچّوں کی سیرت میں خدایا! روشنی بھر دے
(رہے آنکھوں میں کردارِ پیمبرؐ کی سحر روشن)

ترے محبوبؐ کے نقشِ قدم کی روشنی مانگیں
مرے نطق و بیاں نعتِ نبیؐ کی دلکشی مانگیں