ہم عَصرِ کربلا کا کیوں رزق بن رہے ہیں؟- دبستان نو (2016)

یارب! خدائے واحد، فریاد سن ہماری
ہم آنسوؤں کی لے کر مالا کھڑے ہیں کب سے
تیرے سوا پکاریں تنہائیوں میں کس کو
ہم حرفِ التجا ہیں اِس بزمِ روز و شب میں
ہم شہر یارِ طیبہ کے در پہ آ گئے ہیں
کیا دلبری کا موسم چاروں طرف ہَے رقصاں
پرسانِ حال تُو ہَے یا ہَے رسولؐ تیرا
ہم عَصرِ کربلا کا کیوں رزق بن رہے ہیں؟
غیروں کی جھڑکیاں یہ کھاتے رہیں گے کب تک
تضحیک کا الاؤ جلتا رہے گا یوں ہی؟
کب تک گریں گے پتھر آنگن میں ہر طرف سے
کب تک ہدف بنیں گے ہم تیرے دشمنوں کا
فرمانِ مصطفیٰؐ کو ہم نے بھلا دیا ہَے
اپنی خودی کو ہم نے نیلام گھر میں بیچا
یوں سر جھکا کے چلنا عادت نہ تھی ہماری
اب سر جھکا ہوا ہَے غیروں کے در پہ اپنا
محَشر سے بھی یہ پہلے محَشر سا کیوں ہَے برپا
یہ کیا کہ ہم عدو کو للکارتے نہیں ہیں
بے غیرتی کی چادر میں منہ چھپا رہے ہیں

یارب! کھڑی ہَے اُمّت دہلیزِ مصطفیٰؐ پر
اِس پر کرم کی بارش، رحمت کی انتہا کر