ہتھکڑی پہنے ہوئے اندر بھی اک مجرم ہی تھا- زم زم عشق (2015)

ہتھکڑی پہنے ہوئے اندر بھی اک مجرم ہی تھا
جو درِ آق ؐ پہ جا کر رات بھر روتا رہا

میری آنکھوں کے دیے بجھنے سے پہلے یا خدا!
توْ مجھے بارِ دگر محبوب ؐ کا روضہ دکھا

اے ہوائے شہرِ طیبہ پڑھ رہا ہوں میں درود
حاضری کا اک دیا میری ہتھیلی پر جلا

آئنے ہی آئنے ہیں خاک میں بکھرے ہوئے
آئنوں کا مجھ سا عاصی کیا کرے گا سامنا

حضرتِ حساّنؓ، کا دے گا خدا سوزِ دروں
میرے ہاتھوں میں بھی آئے گی کبھی کلکِ رضاؒ

رشک سے دیکھیں گے تجھ کو کوکب و ماہ و نجوم
خاکِ دہلیزِ پیمبر ؐ اپنی آنکھوں میں لگا

گنبدِ خضرا کا جب بھی عکس میں دیکھوں کہیں
میرے ہونٹوں پر مچل اٹھتا ہَے حرفِ التجا

تھام کر مجھ کو رہے جو رات مصروفِ طواف
یا الٰہی! ان رفیقانِ سفر کا ہو بھلا

شب زباں میری درودِ پاک میں ڈوبی رہی
شب قلم بھی میرا تر اشکِ مسلسل میں رہا

ہر قدم پر رات بھر گنتا رہوں گا ساعتیں
قافلہ خلدِ مدینہ کی طرف ہے چل پڑا

آپ ؐ کے در پر کوئی بھی بے نوا ہوتا نہیں
مجھ غلامِ بے نوا پر یہ مدینے میں کھْلا

خواب میں پچھلے برس اس در کو چوما تھا ریاضؔ
پھول اب کے بھی برس ہونٹوں پہ ہَے مہکا ہوا

آج بھی اُن ؐ کے وسیلے سے دعا مانگی ریاضؔ
کھْل کے برسی ہے مرے تازہ مضامیں کی گھٹا