آقاؐ، برہنہ سر ہیں حقیقی کہاوتیں- زم زم عشق (2015)

آق ؐ، برہنہ سر ہیں حقیقی کہاوتیں
برپا ہوئی ہیں حَش ر سے پہلے قیامتیں

ہر سَم ت اُن ؐ کے نقشِ قدم کے جلے چراغ
ہر سَم ت اُن ؐ کی سیرتِ اطہر کی نکہتیں

میَں کیا؟ مرے قلم کی رسائی کہاں تلک؟
شہرِ حضور ؐ، ہیں ترے اندر بھی جنتیں

سر تا قدم ہیں عفو و کرم کی کھْلی کتاب
تابندہ تر ہیں عہدِ نبی ؐ کی صداقتیں

ہر سَم ت اُن ؐ کی عظمت و رفعت کا ہے ظہور
ہر سَم ت ہیں کھڑی مرے آق ؐ کی رحمتیں

خوشبو کے زیرِ لب ہیں ازل سے ثنا کے پھول
صلِّ علیٰ کے آبِ خنک میں ہیں ساعتیں

رعنائیِ خیالِ پیمبر ؐ ہَے وَج د میں
ہیں لب کشا ثنائے محمد ؐ کی ندرتیں

طیبہ کے رتجگوں کی تمنا نہیں جسے
کیسے سجود اُس کے ہیں کیسی عبادتیں

مجھ کو قسم ہے نقشِ کفِ پا کی یا نبی ؐ
بے انت ہیں ازل سے غلامی کی صورتیں

لازم ہیَ اُن ؐ کے نقشِ کفِ پا کو چوم لیں
دیں گے عروج کی مرے آق ؐ بشارتیں

آؤ، درِ حضور ؐ پہ چلتے ہیں سائلو!
تقسیم کر رہے ہیں وہ ؐ اﷲ کی نعمتیں

ہم نے بُھلا دیا ہے سبق اس لئے، حضور ؐ
سرزد ہوئی ہیں ہم سے کروڑوں حماقتیں

خاکِ درِ حضور ؐ سے رہتا ہے رابطہ
محشر کے دن نصیب ہوں طیبہ کی نسبتیں

سرکار ؐ ہم کرم کی نظر کے ہیں منتظر
سر پیٹتی رہی ہیں ہماری ندامتیں

آنچل میں جب تلک نہیں باندھے گی روشنی
تہذیبِ نو اگلتی رہے گی کثافتیں

چہروں سے ہم نقاب الٹتے نہیں، حضور ؐ
ہم نے تمام اوڑھ رکھی ہیں بجھارتیں

اربابِ علم و فن کو کوئی پوچھتا نہیں
ناکام اس لئے ہیں ہماری سفارتیں

آق ؐ، وہی نکلتا ہے چوروں کا بادشاہ
جس کے سپرد کرتے ہیں اپنی امانتیں

منصب تھا کائنات کی تسخیر کا مگر
ٹوٹی ہوئی ہیں آج ہنرور پہ آفتیں

غیرت کو دفن کرکے سرِ عام آج بھی
آق ؐ، قبول کی ہیں مسلسل ہلاکتیں

آخر جھکے گا آپ ؐ کی دہلیز پر قلم
آخر نصابِ عدل پڑھیں گی عدالتیں

جن کو سحر کا نور دکھائی نہیں دیا
لپٹی ہوئی ہیں اُن کے قلم سے جہالتیں

طائف کے چند لوگ ہیں زندہ سرِ قلم
یارب! ہوں دور ان کے دلوں سے کدورتیں

سوچا بھی ہے ریاضؔ کبھی قتل گاہ میں
ایسے ہی کیا خدا سے ملیں گی امامتیں