نئے سال کے آغاز پر ایک دعائیہ نظم- زر معتبر (1995)

دُعا ہے تجھ سے خُداوندِ دو جہاں میری
کہ اِس برس بھی رہے کیفِ سرمدی میں قَلم
کہ اِس برس بھی لبِ تشنہ پہ گریں بوندیں
کہ اِس برس بھی کھلیں مدحتِ نبیؐ کے علَم

کہ اِس برس بھی مِری کشتِ آرزُو مہکے
اُنہیؐ کا ذکر مقدّس ہو صحنِ گُلشن میں
حریم و قصرِ دُعا کے حسین کنگروں سے
شفق گلال بکھیرے زمیں کے آنگن میں

کہ اِس برس بھی شریکِ سفر رہے خوشبو
قدم قدم پہ بچھائے بہار بھی آنچل
صبا سنائے کہانی گلابِ تازہ کی
کہ اِس برس بھی رہے آنکھ یہ مری جل تھل

کہ اِس برس بھی اُجالوں کی ہمنشینی ہو
کہ اِس برس بھی گھٹائیں کرم کی لہرائیں
کہ اِس برس بھی مرے نطق کی ابابیلیں
حروفِ اسمِ محمدؐ کے پُھول برسائیں

کہ اِس برس بھی دُعائیں ہوں مستجاب مری
کہ اِس برس بھی تسلسُل سے چاندنی اترے
کہ اِس برس بھی دیارِ غزل کی گلیوں میں
ثنائے احمدِ مرسل کی دلکشی اُترے

زَہے نصیب مِرے اس برس بھی ہاتف نے
نویدِ مدحتِ سرکارِ دو جہاں دی ہے
عطا کیا ہے مجھے منصبِ ثنا خوانی
مِرے خدا نے مجھے نُدرتِ بیاں دی ہے

فصیلِ شہر انا میں کھڑا ہوں قرنوں سے
مجھے بھی عجز کی دولت سے سرفراز کریں
حضورؐ، کربِ ہوس میں ہوں مبتلا کب سے
حضورؐ، لعل و جواہر سے بے نیاز کریں

ہجومِ شہرِ فغاں آپؐ سے سوالی ہے
قنوطیت سے رہائی ملے دماغوں کو
حضورؐ، لطف و کرم بے اماں جزیروں پر
ردائے عفو ملے معصیت کے داغوں کو

حضورؐ، عرضِ ہنر کا مجھے سلیقہ دیں
متاعِ شہرِ سخن لُٹ گئی تو کیا ہو گا
حضورؐ بھیجئے کالی گھٹا مدینے سے
بہارِ صحنِ چمن لُٹ گئی تو کیا ہو گا

غلام زادوں پہ بھاری ہیں روز و شب آقاؐ
کہ ِاس برس بھی وہی کربناک منظر ہے
قبائے اُمتِ مسلم سے خُوں ٹپکتا ہے
حضورؐ، ملتِ بیضا کا حال ابتر ہے

کہ اِس برس بھی وہی زخم، سِسکیاں، آنسو
کہ اِس برس بھی وہی بے بسی کا عالم ہے
حِصار کھینچ دیا ہے ہوائے برہم نے
قضا کی اب کے برس بھی فصیل محکم ہے

گداز و سوز کے سوداگروں کی بستی میں
حضورؐ آپ کے ذکرِ جمیل پر پہرے
حضورؐ، جبرِ مسلسل کے قفل بھی ٹوٹیں
رہیں گے کتنے برس سلسبیل پر پہرے

کہ اِس برس مِرے آنگن میں اتنے پھول کھلیں
ہر ایک شخص کا دامانِ آروز بھردوں
ہوا کے ہاتھ پہ رکھ کر چراغ مدحت کے
دلوں کی اُونگھتی گلیوں میں روشنی کر دوں

حضورؐ، اب کے برس بھی گلاب رُت سنورے
دھنک کے رنگ سجاتا رہوں میں لفظوں میں
فضا میں اُڑتی پھریں تتلیاں درودوں کی
چراغ جلتے رہیں آنکھ کے دریچوں میں

حضورؐ، اب کے برس بھی میں چشمِ پُرنم سے
جمالِ گنبدِ خَضَرا کی داستاں لکھوں
ورق ورق پہ بکھیروں میں چاند کی کرنیں
غبارِ جاں کی بلندی کو آسماں لکھوں

حضورؐ، اب کے برس میں نے سوچ رکھا ہے
ہر ایک اشک کو صدیوں کا رتجگادوں گا
ثنا کے پُھول سجا کر میں اپنے ہونٹوں پر
دلوں کو سوزِ محبت کا ذائقہ دوں کا

حضورؐ، شاخِ برہنہ پہ پھول کِھل اُٹھیں
مِرے بھی گھر میں مہک، روشنی، ہوا پہنچے
کہ اِس برس تو مدینے سے آپؐ کا قاصد
پیام اذنِ حضوری کا لے کے آ پہنچے