حرفِ آخر ہیں کتابِ انبیا میرے حضور ؐ- تحدیث نعمت (2015)

حرفِ آخر ہیں کتابِ انبیا میرے حضورؐ
ابتدا و انتہائے ارتقا، میرے حضورؐ

اُنؐ کے در پر منتظر رہتے ہیں اربابِ طلب
آخری امید ہیں بعدِ خدا، میرے حضورؐ

رہنمائی کا کرے دعویٰ کوئی تو سب غلط
ساری مخلوقات کے ہیں پیشوا میرے حضورؐ

ساحلوں کی روشنی جھک کر کرے اُنؐ کو سلام
ہر سفینے کے ازل سے ناخدا میرے حضورؐ

مت سمجھنا بے سہارا، مفلس و نادار ہوں
ہر جہاں میں بے نواؤں کی نوا میرے حضورؐ

ہر برہنہ سر پہ ہَے دستِ کرم سرکارؐ کا
اوڑھنی دیں گے تجھے باد صبا! میرے حضورؐ

گنبدِ خضرا سے نکلے گی شعاعِ در گذر
پیشِ خدمت ہیں حروفِ التجا، میرے حضورؐ

آج بھی اعدا کی تلواروں کا ہَے سایہ محیط
آج پھر ہے کربلا میں قافلہ، میرے حضورؐ

ہو عزائم کے ہلالِ نو کا سینوں میں ظہور
بڑھ رہا ہَے ظلمتوں کا دائرہ، میرے حضورؐ

ہم خدا کے سادہ دل بندے ہدف ہیں جبر کا
جل رہی ہَے فتنہ و شر کی ہوا، میرے حضورؐ

ٹوٹتے رہتے ہیں لاکھوں آئنے شام و سحر
باوجود اس کے اٹھی گردِ اَنا، میرے حضورؐ

خود کشی کے ہیں دہانے پر کھڑے پیر و جواں
دم بخود ہیں آج بھی ارض و سما، میرے حضورؐ

عکس سب مفرور ہو کر پتھروں میں چھپ گئے
لٹ چکا ہَے گردِ شب میں آئنہ، میرے حضورؐ

جانتا ہوں طولِ شب طولِ قیامت تو نہیں
دیجئے سہمے ہوؤں کو حوصلہ، میرے حضورؐ

ڈرتے ڈرتے مَیں نے مانگی ہے غلامی کی سند
میرے دل میں بھی ہَے عکسِ نقشِ پا، میرے حضورؐ

چشمِ تر زادِ سفر کی کب رہی ہَے منتظر
آپؐ کے در پر میں پہنچا بارہا، میرے حضورؐ

میری پروازِ تخیّل کو ملے پاکیزگی
تا ابد روشن ہو گلزارِ منیٰ، میرے حضورؐ

آپؐ کے صدقے میں دیتا ہَے خدا سب کچھ مجھے
ہیں مواجھے میں مرے حرفِ دعا، میرے حضورؐ

آپؐ کی اور آپؐ کے اللہ کی یہ مجرم سہی
اُمّتِ عاصی کے حق میں فیصلہ، میرے حضورؐ

اُن کے قدموں سے لپٹ کر مانگ لوں ہفت آسماں
رحمتوں کا سلسلہ در سلسلہ، میرے حضورؐ

ایک اک نقشِ قدم آنکھوں میں رکھ لیتا ریاضؔ
کاش مَیں ہوتا رہِ غارِ حرا، میرے حضورؐ

غیرتِ تیمور کا بھی کر لیا سودا، ریاضؔ
اُمّتِ نادان سے ہوں گے خفا میرے حضورؐ

اپنی قبریں کھودنے کا ہَے عمل جاری ابھی
اب کدھر جائے ریاضِؔ خوشنوا، میرے حضورؐ