مدینے کے در و دیوار سے ہم دوستی کر لیں- تحدیث نعمت (2015)

مدینے کے در و دیوار سے ہم دوستی کر لیں
غبارِ شامِ غم میں روشنی ہی روشنی کر لیں

چراغاں ہی چراغاں ہَے قلم کی راجدھانی میں
ثنائے مرسلِ آخرؐ سے دل اپنا غنی کر لیں

جوارِ گنبدِ خضرا میں دے چھوٹا سا گھر، یارب!
منّور نورِ ایماں سے ہم اپنی زندگی کر لیں

بھروسہ زندگانی کا نہیں کوئی مرے بچّو!
پرو کر ہار اشکوں کے سلامِ آخری کر لیں

چراغِ نسبتِ آقاؐ رہے گا عمر بھر روشن
چلو ہم بھی غلامانِ نبیؐ کی نوکری کر لیں

یہ شب سب سے بڑی شب ہَے، یہ دن سب سے بڑا دن ہے
شبِ میلاد پر جتنی بھی ممکن ہو خوشی کر لیں

بہت سے دکھ سمیٹے جا رہی ہَے چشمِ تر اپنی
اداسی بڑھ گئی ہَے اِس لئے ذکرِ نبیؐ کر لیں

صبا کے ہاتھ پر رکھ لوں مَیں تازہ نعت کے گجرے
ذرا رخصت کے لمحوں کو اَجَل، ہم ملتوی کر لیں

ہزاروں نقشِ پا اُنؐ کے اِدھر بھی ہیںِ اُدھر بھی ہیں
مدینے کی گلی سے چاند سی اپنی گلی کر لیں

مسلسل آنسوؤں کی جب میّسر ہے ہمیں رم جھم
مناسب ہے یہی، شاخِ دعا، دل کی ہری کر لیں

غلاموں کے برہنہ سر پہ رکھتے ہیں وہ دستاریں
غلامی میں ہے سلطانی، غلامی آپؐ کی کر لیں

اتر آئیں گے آنگن میں ستاروں کے ابھی جھرمٹ
ریاضؔ اپنا وظیفہ سیّدیؐ یا مرشدیؐ کر لیں